
اس کے تحت ایچ ون بی ویزا رکھنے یا حاصل کرنے والے افراد کے لیے کمپنیوں کو سالانہ ایک لاکھ ڈالر جمع کرانا لازمی قرار دے دیا گیا۔
یہ ویزا بنیادی طور پر ماہر اور تعلیم یافتہ افراد کے لیے مخصوص ہے، تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس کا غلط استعمال خصوصاً بھارتی شہریوں کی جانب سے کیا جا رہا تھا جو بڑی تعداد میں یہ ویزا حاصل کر کے امریکہ میں ملازمتیں کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ نئی پالیسی 21 ستمبر سے نافذ العمل ہو گی۔
سب سے زیادہ ایچ ون اور ایچ ون بی ویزا لینے والی شہریت بھارتیوں کی تھی۔ صدر ٹرمپ کے اس اقدام کے بعد بھارت کی سب سے بڑی برآمد ماہر آئی ٹی افرادی قوت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی صارفین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے اور کئی اسے بھارتیوں کے لیے امیگریشن بم قرار دے رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف فیس میں اضافہ کیا ہے بلکہ H-1B ملازمتوں کے لیے کم از کم تنخواہ کی حد بھی بڑھا دی ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے نیا "$1 ملین گولڈ کارڈ ویزا" بھی متعارف کرایا گیا ہے جو صرف دولت مند افراد حاصل کر سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: روس سے دوستی مہنگی پڑ سکتی ہے؟ یورپی یونین کی بھارت کو سخت وارننگ
ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے کہ ایمازون، مائیکروسافٹ اور گوگل جن کا انحصار بڑی حد تک H-1B ورکرز، خاص طور پر بھارت اور چین سے تعلق رکھنے والے ماہرین پر ہوتا ہے، اب زیادہ اخراجات اور ٹیلنٹ کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کریں گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ قدم نہ صرف بھارتی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ امریکہ میں مقیم لاکھوں بھارتی شہریوں کے لیے بھی ایک بڑا جھٹکا ہے جو پہلے ہی امیگریشن پالیسیوں میں سختی کے باعث دباؤ کا شکار ہیں۔