
چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اروناچل پردیش، جسے چین "زنگنان" کے نام سے پکارتا ہے، تاریخی، جغرافیائی اور انتظامی لحاظ سے چین کا حصہ ہے۔ چینی حکومت کے مطابق، ان علاقوں کو نئے چینی نام دینا اُن کے خودمختار انتظامی دائرہ اختیار میں آتا ہے اور یہ اقدام مکمل طور پر داخلی معاملہ ہے۔
چینی وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ناموں کی یہ تبدیلی خطے کی تاریخی اور ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنے کے لیے کی گئی ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کروایا جا سکے کہ یہ علاقہ چین کی تاریخی حدود میں شامل رہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ چین نے اس قسم کا قدم اٹھایا ہو۔ اس سے قبل بھی اپریل 2023 میں چین نے اروناچل پردیش کے 30 مقامات کے چینی نام رکھے تھے، جس پر بھارت نے سخت احتجاج کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کا تیسرا رابطہ، سیز فائر برقرار رکھنے پر اتفاق
بھارت نے اس تازہ اقدام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے غیر قانونی اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اس کی جغرافیائی حقیقت کو تبدیل کرنے کی کسی کوشش کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ اروناچل پردیش کا علاقہ کئی دہائیوں سے چین اور بھارت کے درمیان تنازع کا شکار ہے۔ چین اس خطے کو جنوبی تبت کا حصہ تصور کرتا ہے جبکہ بھارت اسے اپنی ریاست قرار دیتا ہے۔ اس تنازع نے 2020 میں اس وقت شدت اختیار کی تھی جب لداخ کے علاقے میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، چین کی جانب سے اس وقت ناموں کی تبدیلی کا اعلان ایک سوچا سمجھا سفارتی اور سیاسی پیغام ہے، جو نہ صرف بھارت کو چیلنج کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی اس تنازع کی سنگینی کی یاد دہانی کرواتا ہے۔