اسماعیل ہنیہ : شخصیت اور جدوجہد کے کچھ پہلو
Image
فلسطینی تحریک مزاحمت "حماس" کے سیاسی بیورو کے سربراہ "اسماعیل ہنیہ" ایرانی دارالحکومت تہران میں صہیونی قاتلانہ حملے میں شہید کر دیے گئے۔
 
تحریر :مہتاب عزیز 
 
حماس نے اسماعیل ہنیہ کے شہید ہونے کی تصدیق کردی ہے۔  اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر حماس  کے بیان میں کہا گیا ہےکہ ہنیہ کی شہادت پر فلسطینی عوام سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔  شہادت پر عرب عوام، امت مسلمہ اور دنیا بھر کے انصاف پسند عوام سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔
 
حماس رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایک بزدلانہ فعل ہے جس کی سزا دی جائے گی۔  یہ ایک سنگین واقعہ ہے۔  ہنیہ کے قتل سے اسرائیل کو اس کے مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ہم بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے کھلی جنگ لڑ رہے ہیں، بیت المقدس کیلئے ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
 
واضع رہے کہ  اسماعیل ہنیہ ، ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران میں موجود تھے۔ 
 
غزہ کے حالیہ قتل عام کے دوران صیہونیوں نے ان کے خاندان کے 60 افراد کو شہید کیا ہے، جن میں ان کے 3 بیٹے، 5 پوتے اور بہن شامل ہیں۔
 
اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے  مغربی کنارے میں عام ہڑتال اور بڑے پیمانے پر مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ النجاہ یونیورسٹی سمیت مغربی کنارے کے تمام تعلیمی اداروں  سوگ میں کلاسز اور کام معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
 
روسی وزارتِ خارجہ نے  اپنے ابتدائی رد عمل میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔  روسی نائب وزیرِ خارجہ میخائل بوگدانوف کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما کی ہلاکت سے خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
 
ترکیہ کی وزارت خارجہ نے  تہران میں اس کارروائی اور اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس حملے کا مقصد غزہ کی جنگ کو خطے میں پھیلانے ہے۔
 
فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے اسماعیل ہنیہ پر حملے اور اُن کی ہلاکت کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔اُنہوں نے کہا  ہے کہ ہنیہ کا قتل ایک بزدلانہ کارروائی ہے اور اس کی وجہ سے خطے کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اُنہوں نے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قبضے کے خلاف متحد، صبر اور ثابت قدم رہیں۔
"اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ" 29 جنوری 1962 کو اُس وقت مصر کے کے زیر اتنظام غزہ کی پٹی میں واقعے الشطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین 1948 میں فلسطینیوں کی جبری بیدخلی سے پہلے  اسرائیل کے زیر قبضہ عسقلان کے رہائشی تھے۔ 
 
اسماعیل ہنیہ نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکولوں میں اپنی تعلیم حاصل کی اور غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے 1987 میں عربی ادب میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی میں ہی آپ حماس سے وابستہ ہو ئے۔ اس سے قبل 1985 سے 1986 کے درمیان آپ اخوان المسلمون کی فکر سے وابسطہ طلبہ کونسل کے سربراہ رہے۔ یونیورسٹی میں فٹ بال کے بہترین کھلاڑی مانے جاتے تھے۔
 
 1988 میں حماس کے قیام کے وقت نوجوان اسماعیل ہنیہ اس کے بانی اراکین میں شامل تھے، 1997 میں وہ حماس کے روحانی قائد شیخ احمد یاسین کے پرسنل سیکرٹری  اور انکے  دفتر کے سربراہ بنے۔
 
 1988 میں حماس کے پہلے انتفادہ میں مظاہروں کی قیادت کرنے پر اسماعیل ہانیہ کو گرفتار کر لیا گیا اور 6 ماہ قید کے بعد رہا کیا گیا۔ 1989 میں اسرائیل نے آپ کو دوبارہ گرفتار کیا۔
 
تین سال قید کے بعد 1992 میں آپ کو جبرا لبنان جلاوطن کر دیا گیا۔ جہاں سے اوسلو معاہدے کے بعد آپ کی غزہ واپسی ہوئی۔ 2006 میں فلسطین کے الیکشن میں حماس کی اکثریت کے بعد اسماعیل ہنیہ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔
 
 حماس الفتح کے اختلافات کے باعث یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی لیکن غزہ میں حماس کی حکمرانی برقرار رہی اور اسماعیل ہانیہ ہی اس کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے۔
 
 2017 میں انہیں ڈاکٹر خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا، جس کے بعد آپ  فلسطین کی بین الاقوامی سفارت کاری کا چہرہ بن گئے۔ 2023 سے وہ قطر میں قیام پذیر تھے۔
 
اسرائیل  ماضی میں کئی بار اسماعیل ہنیہ  کو شہید کرنے کی کوششیں کر چکا ہے۔ پہلی بار 2006 میں جب اسماعیل ہنیہ  وزیر اعظم تھے  تب  اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے انکے  دفتر کو نشانہ  بنایا تھا۔ اس حملے میں انکے تین محافظ زخمی ہوئے لیکن  آپ کچھ لمحے پہلے اپنے دفتر سے نکلنے کے باعث محفوظ رہے تھے۔ 
 
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد  مبینہ طور پر قطر اور ترکیہ میں بھی کئی بار قاتلانہ حملے کی کوشش کر چکی تھی۔  اسرائیل نے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں اسماعیل ہنیہ کے گھر کو بھی گئی بار  نشانہ بنایا  ہے۔ 
 
دوسری جانب اسرائیل ایران  کی سرزمین پر کئی اہم شخصیات کو ہدف بنا کر قتل کر چکا ہے۔حالیہ عرصے میں دیکھا جائے تو  2021 میں ایران کی ایک اہم شخصیت اور جوہری سائنسدان "محسن فخری زادہ" کا ریموٹ کنٹرول بم کے حملے میں قتل کیا  گیا تھا۔ 
 
 مئی 2022 میں تہران میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر" کرنل سید خدائی "کا قتل بھی  اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائی تھی۔