
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے دوران کمیٹی ارکان نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی حکام سے براہِ راست سوالات کیے کہ بار بار ہونے والے انکشافات میں لاکھوں شہریوں کی ذاتی تفصیلات کیسے فاش ہو رہی ہیں۔
حکام نے بتایا کہ حساس معلومات جیسے سم ریکارڈز، شناختی کارڈز، سفری ریکارڈز اور حتیٰ کہ حج درخواستوں کی تفصیلات بھی لیک ہو کر ڈارک ویب پر کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں ان میں سے کئی محض 500 روپے میں دستیاب ہیں۔
پی ٹی اے حکام نے تصدیق کی کہ یہاں تک کہ چیئرمین پی ٹی آے کا سم ریکارڈ بھی ہیک ہو چکا ہے جو ان لیکس کی سنگینی ظاہر کرتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستانی شہریوں کی معلومات اکثر ڈارک ویب پر سامنے آتی ہیں ،تقریباً 3 لاکھ حج درخواست گزاروں کی معلومات لیک ہو چکی ہیں، اس پر اعلیٰ سطح کی انکوائری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2022 میں ایک انکوائری شروع کی گئی تھی جسے اب وزارت داخلہ نے سنبھال لیا ہے۔
ڈارک ویب مارکیٹ پلیس
ڈارک ویب، جو انٹرنیٹ کا سب سے پوشیدہ حصہ ہے اور جس تک صرف مخصوص آلات کے ذریعے رسائی ممکن ہے، اب چرائے گئے ڈیٹا کی خفیہ منڈی بن چکا ہے، پاکستانی شہریوں کے شناختی کارڈز، سم ہسٹری اور سفری ریکارڈز 500 سے 5 ہزار روپے کی انتہائی کم قیمت پر بیچے جا رہے ہیں۔
سینیٹرز نے خبردار کیا کہ ایسے لیکس شناختی چوری اور منی لانڈرنگ کو آسان بناتے ہیں اور اگر بدنیت عناصر فائدہ اٹھائیں تو یہ سنگین قومی سلامتی کے خطرات بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
پالیسی کا خلا
پی ٹی اے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے 1300 ایسی ویب سائٹس بلاک کی ہیں جو غیر قانونی ڈیٹا ٹریڈ میں ملوث تھیں لیکن ہمارے پاس اختیارات محدود ہیں، پاکستان میں اب تک ایک جامع ڈیٹا پروٹیکشن قانون موجود نہیں ہے۔
حکام کے مطابق 2023 کا پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل، جو یورپی یونین کے جی ڈی پی آر کی طرز پر بنایا گیا تھا تاحال پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے، موجودہ قوانین، جیسے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)2016، زیادہ تر تعزیری ہیں اور نظامی ناکامیوں کو روکنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ماہرین اور سینیٹرز کی سفارشات
ٹیکنالوجی ماہرین اور سینیٹرز فوری اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن میں 2023 بل کی جلد منظوری، ایک محفوظ قومی ڈیٹا سینٹر کا قیام، زیرو ٹرسٹ ڈیجیٹل آرکیٹیکچر کا نفاذ اور ایف آئی اے جیسے اداروں کو مزید وسائل دینا شامل ہے، عوامی آگاہی مہمات اور سائبر ریزیلینس میں سرمایہ کاری کو بھی ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔
کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایسے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان عوامی اعتماد کھونے، مالی عدم استحکام اور بڑھتے ہوئے قومی سلامتی کے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔