ان کی شمولیت کے بعد ریاستی کابینہ میں پہلی بار مسلم نمائندگی شامل ہوئی ہے، جو ایک طویل عرصے سے زیرِ بحث تھی۔
ذرائع کے مطابق محمد اظہر الدین کی کابینہ میں شمولیت کو کانگریس پارٹی نے اقلیتی نمائندگی کے فروغ کی علامت قرار دیا ہے، جبکہ اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس فیصلے کو ایک انتخابی حکمتِ عملی اور سیاسی چال قرار دیا ہے۔
بی جے پی کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ کانگریس حکومت نے یہ فیصلہ 11 نومبر کو ہونے والے جوبلی ہلز کے ضمنی انتخاب کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا، جہاں تقریباً 30 فیصد ووٹرز مسلمان ہیں۔
ان کے مطابق محمد اظہر الدین اسی حلقے سے انتخابی ٹکٹ کے امیدوار بھی ہیں، لہٰذا ان کی کابینہ میں شمولیت انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔
بی جے پی نے مزید الزام لگایا کہ کانگریس حکومت نے اقتدار کے اختیارات کا غلط استعمال کیا تاکہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ تاہم تلنگانہ کانگریس کے صدر مہیش گاؤڈ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے ہمیشہ اقلیتوں کی نمائندگی کو ترجیح دی ہے۔
مہیش گاؤڈ نے کہا کہ محمد اظہر الدین کو کابینہ میں شامل کرنا سماجی انصاف اور اقلیتی برادری کے اعتماد کی بحالی کی ایک اہم کوشش ہے، ماضی میں بھی کانگریس حکومتوں نے اقلیتی نمائندوں کو کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔
انہوں نے بی جے پی پر جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی خود راجستھان میں ایک امیدوار کو وزیر بنا چکی ہے، جو بعد میں کانگریس کے امیدوار سے شکست کھا گیا تھا۔
محمد اظہر الدین کی بطور وزیر شمولیت نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے بلکہ بھارتی کرکٹ شائقین میں بھی دلچسپی پیدا کر دی ہے۔