خودکش حملہ آور بنانے کا ٹارگٹ بنائی گئی بلوچ بچی اور والدہ کی گفتگو بھی شناخت مخفی رکھ کر میڈیا کے سامنے جاری کر دی گئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشتگردوں کے مکروہ عزائم کیسےناکام بنائے، ہوشربا تفصیلات سامنے آ گئیں۔
وزیرداخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کے ہمراہ تہلکہ خیز پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت اور مؤثر کارروائی سے کراچی ایک بڑی تباہی سے محفوظ رہا۔ دہشت گردوں کا نیا نشانہ ہمارے بچے ہیں، اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔
ضیاء الحسن لنجار کا کہنا تھا کہ متاثرہ بچی کی شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھی جا رہی ہے، ریاست اس کی عزت، تحفظ اور مستقبل کی ضامن ہے، کالعدم دہشت گرد نیٹ ورک کی سنگین سازش ناکام بنا دی گئی، کم عمر بلوچ بچی کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ نے کہا کہ 25 دسمبر کی شب ایک انتہائی حساس انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران کم عمر بچی کو بحفاظت تحویل میں لیا گیا، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور انتہا پسند مواد کے ذریعے معصوم ذہن کو بتدریج زہر آلود کیا گیا، بچی والدہ سے چھپ کر موبائل استعمال کرتی رہی، دہشت گرد ہینڈلرز نے اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ پاکستان مخالف اور غیر ملکی پشت پناہی یافتہ مواد کے ذریعے ذہن سازی کی گئی، ایک ہینڈلر نے ہمدردی اور مدد کے بہانے رابطہ کیا اور بعد ازاں خودکش حملے پر اکسانا شروع کیا، بچی کو کراچی بھیجا گیا، گھر والوں کو جھوٹ بول کر روانگی اختیار کی گئی، پولیس ناکوں پر چیکنگ کے باعث ہینڈلر مطلوبہ مقام تک نہ پہنچ سکا اور سازش بے نقاب ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈی بریفنگ کے دوران بچی نے نیٹ ورک اور طریقہ واردات کی مکمل تفصیلات فراہم کیں، کم عمری کے باعث خاندان کو فوری طور پر طلب کیا گیا، والدہ اور بہن بھائی کراچی پہنچے، بچی کو مکمل تحفظ اور عزت کے ساتھ خاندان کے حوالے کیا گیا، تفتیش کا عمل جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سکیورٹی فورسز کا آپریشن، 4 بھارتی سپانسرڈ دہشتگرد ہلاک
متاثرہ بچی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد سامنے آیا، پھر وہی مواد بار بار دکھایا جانے لگا، رابطہ بڑھا، لنکس اور تقاریر بھیجی گئیں، اور آہستہ آہستہ وہی سب کچھ سچ لگنے لگا، جب رابطہ کار کو معلوم ہوا کہ میرے والد نہیں ہیں تو اس نے ہمدردی کے نام پر مجھے مزید پھنسایا، واٹس ایپ گروپس میں BLA کی کارروائیوں کو بہادری بنا کر پیش کیا گیا، جو سراسر دھوکا تھا، میری پڑھائی متاثر ہونے لگی اور ذہن میں یہ بات ڈالی گئی کہ جان دینا ہی سب سے بڑا مقصد ہے۔
متاثرہ بچی نے کہا کہ میں نے گھر سے نکلنے کے لیے بہانہ بنایا، آج سمجھ آیا کہ میں کس تباہی کی طرف جا رہی تھی، ناکے پر پوچھ گچھ ہوئی تو میں شدید گھبرا گئ، میں بلوچ ہوں، ہماری روایات عورت کی عزت سکھاتی ہیں، عورتوں اور بچیوں کو قربان کرنا بلوچیت نہیں، جو لوگ قربانی کے نام پر گروپس میں شامل کرتے ہیں وہ مددگار نہیں بلکہ شکاری ہوتے ہیں، اگر کوئی کہے بڑا مقصد ہے اس لیے جان دے دو، تو سمجھ لو وہ تمہاری زندگی کا دشمن ہے۔
والدہ کا کہنا تھا کہ عوامی مفاد میں ہم نے بیان دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی اور بچی اس جال میں نہ پھنسے، ریاست نے ماں کی طرح میری بچی کی جان بھی بچائی اور اس کی عزت بھی مکمل طور پر محفوظ رکھی۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نفرت اور دہشت گرد مواد کے خلاف سخت چیکس لگائیں، اکاؤنٹس بند کریں اور الگورتھمز درست کریں، زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت سہولت کاروں اور نیٹ ورکس کو قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، والدین بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں، ایک موبائل پورے خاندان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، سی ٹی آپریشنز بلا تعطل جاری رہیں گے، دہشت گردی کے خلاف ریاستی عزم غیر متزلزل ہے۔
وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ یہ واقعہ واضح ثبوت ہے کہ کالعدم BLA اور BLF خواتین اور کم عمر بچیوں کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں، خودکش حملہ نہ اسلام میں جائز ہے، نہ انسانیت میں، اور نہ ہی بلوچ روایات میں اس کی کوئی گنجائش ہے، یہ دہشت گردی کی بدترین شکل ہے کہ اب کم عمر بچیوں کو بھی موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، یہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں بلکہ بچوں کا استحصال اور کھلی دہشت گردی ہے۔