لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک اویس خالد نے پتنگ بازی سے متعلق آرڈیننس کے خلاف شہری منیر احمد کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دئیے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سےاسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل انوار حسین پیش ہوئے۔
دوران سماعت وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ اسمبلی سیشن کے دوران آرڈیننس نہیں آسکتا، بسنت سے ماضی میں کئی قیمتی جانوں کا ضیا ع ہوا، عدالت بسنت آرڈیننس کالعدم قرار دے، پٹیشن کے حتمی فیصلے تک بسنت آرڈنینس پر عمل درآمد روکا جائے۔
جسٹس ملک اویس خالد نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کی جانوں کی سیفٹی بہت ضروری ہے ، پتنگ بازی چائنہ میں اڑھائی ہزار سال پہلے شروع ہوئی ، پوری دنیا میں کائٹ فلائنگ ہوتی ہے مگر سیفٹی بہت ضروری ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ چائنہ اور جاپان میں ڈور نہیں بنتی لوگ پیچے نہیں لگاتے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کا لاہور میں بسنت کی تاریخ کا اعلان
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں سیفٹی کو ریگولیٹ کیسے کریں گے؟ درخواست گزار کا مؤقف صرف یہ ہے کہ سیفٹی بہت ضروری ہے، آپ ہمیں پوچھ کر بتائیں کہ ریگولیٹ کیسے کریں گے؟ بسنت منانے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟
جسٹس ملک اویس خالد نے استفسار کیا کہ آرڈنینس جاری کرنے کی نوبت کیوں آئی؟ درخواست گزار کا یہ موقف ہے ،آپ یہ بتائیں کہ سیفٹی کا ذمہ دار کون ہے؟
سرکاری وکیل نے جواب جمع کروانے کے لیے مہلت مانگ لی جس پر عدالت نے سرکاری وکیل کو 22 دسمبر کو ہدایات لیکر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی اور کائٹ فلائنگ آرڈیننس پر فوری عملدرآمد روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔
بعدازاں عدالت نے کائٹ فلائٹ آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست پر مزید سماعت 22 دسمبر تک ملتوی کردی۔