حکومت نے سینیٹ سے 27ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے بعد وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل پر مشاورت کا آغاز کر دیا ہے ، اس نئی عدالتی اتھارٹی کا قیام آئین کی تشریح اور وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے عمل میں لایا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس امین الدین خان، جو اس وقت سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے سربراہ ہیں کو پہلے وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس تعینات کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ سے جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی کے نام بھی زیر غور ہیں جبکہ سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس کے کے آغا اور جسٹس جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹٹس روزی خان بریچ کے نام بھی زیرِ غور ہیں۔
ذرائع کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کی ابتدائی تشکیل صدارتی حکم نامے کے ذریعے کی جائے گی جبکہ مستقبل میں توسیع کے لیے پارلیمان کی منظوری درکار ہو گی، مجوزہ نظام کے تحت صدرِ مملکت وزیرِ اعظم کی سفارش پر ججز کی تقرری کریں گے۔
وفاقی آئینی عدالت کا مقصد
حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز کو دوبارہ زندہ کیا ہے تاکہ سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم ہو اور آئینی فیصلے تیزی سے اور زیادہ مؤثر انداز میں ہو سکیں، اس اقدام کا مقصد عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنانا اور عوام کے اعتماد میں اضافہ کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور
ذہن نشین رہے کہ الگ آئینی عدالت کا تصور پہلی بار 2006 کے چارٹر آف ڈیموکریسی میں سامنے آیا تھا جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان طے پایا تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ اپیلوں پر توجہ دے جبکہ نئی عدالت آئینی امور نمٹائے۔
یاد رہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز 26ویں آئینی ترمیم میں سیاسی مخالفت کے باعث شامل نہیں ہوسکی تھی تاہم اب 27ویں ترمیم کے ذریعے اسے دوبارہ شامل کیا گیا ہے۔
ججز کی مدتِ ملازمت اور مقام
مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے ججز 68 سال کی عمر میں ریٹائر ہوں گے جو سپریم کورٹ کے ججز سے تین سال بعد ہے تاکہ تسلسل برقرار رہے اور تجربہ کار ماہرینِ قانون اس فورم کا حصہ بنیں۔
یہ عدالت اسلام آباد میں وفاقی شرعی عدالت کی موجودہ عمارت میں قائم کی جائے گی جبکہ شریعت کورٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ میں منتقل کیا جائے گا، یہ انتظام علامتی طور پر آئینی عدالت کو دیگر عدالتوں سے علیحدہ حیثیت دیتا ہے۔
عدالت کے اختیارات
وفاقی آئینی عدالت کو آئینی تشریح، وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات اور آئین سے براہِ راست پیدا ہونے والے قانونی سوالات پر سماعت کا اختیار ہو گا جبکہ یہ عدالت صدارتی احکامات اور آئینی ترامیم کا جائزہ بھی لے سکے گی جنہیں پارلیمان یا صدر کی جانب سے ریفر کیا جائے۔