رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کی ڈی ریگولیشن کے بعد ادویات کی قیمتوں میں 32 فیصد اضافہ ہوا جس کے باعث دو سو سے زائد عام استعمال کی دوائیں مہنگی ہو چکی ہیں ۔
نگراں دور حکومت میں ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول ختم کیا گیا تھا، حکام کا خیال تھا کہ ڈی ریگولیشن سے مقابلے میں اضافہ جبکہ قیمتوں میں کمی ہو گی لیکن اس کے برعکس ادویات کی قیمتوں میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہریوں، ہسپتالوں اور محکمۂ صحت کی جانب سے ادویات کی ناقابل برداشت قیمتوں کی شکایات پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ادویات کی قیمتوں کے معاملے پر قومی سروے کیا گیا جس میں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سامنے آیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کے چیئرمین سینیٹر عامر ولی الدین چشتی نے انکشاف کیا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے تصدیق کی ہے کہ ڈی ریگولیشن کے آغاز سے اب تک ادویات کی قیمت میں اوسطاً 32 فیصد اضافہ ہوا ، بعض ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد جبکہ کئی میں 50 فیصد کے قریب اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈی ریگولیشن پالیسی کا مقصد سرمایہ کاری میں اضافہ اور برآمدات کو فروغ دینا تھا نہ کہ مریضوں پر بوجھ ڈالنا، ہم نے فیصلہ کیا ہے جہاں بھی ادویات کی قیمتوں میں 50 فیصد یا اس سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، وہاں صنعت سے وضاحت طلب کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: تین ماہ میں 50 کلو وزن کم کریں اور سپورٹس کار جیتیں
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی آئندہ ماہ دوا ساز کمپنیوں سے ملاقات کرے گی اور اگر کسی قسم کی ملی بھگت یا کارٹیل سازی کے ثبوت ملے تو معاملہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کو کارروائی کے لیے بھیجا جائے گا۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ حکومت دوا ساز صنعت کی ترقی چاہتی ہے مگر یہ ترقی مریضوں پر بوجھ کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے جو پہلے ہی مہنگائی کے دباؤ میں ہیں، کمیٹی اب وزیرِاعظم کی جانب سے ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے سفارشات کی منتظر ہے۔
واضح رہے کہ ڈی ریگولیشن سے قبل کمپنیوں کو صارف قیمت اشاریے سے منسلک فارمولے کے تحت سالانہ زیادہ سے زیادہ 7 فیصد اضافہ کرنے کی اجازت تھی، اس نظام کے مطابق دو سال میں ادویات کی قیمتوں میں تقریباً 14 فیصد اضافہ ہونا تھا جو موجودہ 32 فیصد اضافے سے کہیں کم ہے۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے سروے کے اعداد و شمار سے اختلاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حقیقی اضافہ صرف 15 فیصد کے قریب ہے، اگر نئی مصنوعات کو نکال دیا جائے تو موجودہ ادویات کی قیمتوں میں حقیقی اضافہ صرف 12 فیصد ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈی ریگولیشن پالیسی کا مقصد سرمایہ کاری کو راغب کرنا تھا لیکن اس کے برعکس عوامی مایوسی میں اضافہ ہوا اور نتیجے میں مریض زیادہ قیمتیں ادا کر رہے ہیں ، اگر یہ رجحان جاری رہا تو بنیادی صحت کی سہولیات بھی ناقابلِ برداشت ہو سکتی ہیں۔