ذرائع کا بتانا ہے کہ افغان وفد تین گروپوں، قندھار، کابل اور خوست کی الگ الگ ہدایات پر عمل کر رہا تھا، تحریری ضمانتوں کے مرحلے پر افغان وفد نے اچانک نیا مطالبہ پیش کر دیا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق کابل گروپ نے مطالبہ کیا کہ امریکا کو مذاکرات میں ضامن کی حیثیت سے شامل کیا جائے، یہ مطالبہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا، نہ ہی پچھلے ادوار میں کبھی اٹھایا گیا، افغان وفد کے اس اقدام نے ثالثوں کو حیران کر دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ماہرین کے مطابق افغان وفد نے سلامتی کے بجائے مالی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی، مذاکرات کے دوران افغان وفد کے اراکین ایک دوسرے سے الجھتے رہے، کچھ اراکین کمرۂ اجلاس سے باہر بیٹھے افراد سے ہدایات لیتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کی معاونت نامنظور، پاکستان کا افغان وفد کے سامنے دو ٹوک مؤقف
سفارتی ذرائع کی جانب سے بتایا گیا کہ کابل سے موصول ہدایات کے بعد ہر شق دوبارہ زیرِ بحث لائی گئی، افغان فریق نے مذاکرات میں تاخیر جان بوجھ کر پیدا کی، افغان طالبان امریکا کو ضامن بنا کر مالی مدد کا راستہ کھولنا چاہتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کا مقصد دہشتگردی سے نمٹنا نہیں بلکہ ڈالر کے بہاؤ کی بحالی ہے، ثالث ممالک قطر اور ترکی نے پاکستان کے مؤقف کو درست قرار دیا ہے، ثالثوں کا کہنا ہے کہ افغان فریق مواد نہیں بلکہ اندرونی عدم استحکام کے باعث رکاوٹ ہے۔
ذرائع کی جانب سے مزید کہا گیا کہ افغان رجیم تحریک طالبان پاکستان کو سیاسی سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، جب تک کابل اندرونی اقتدار کی جنگ ختم نہیں کرتا، امن ممکن نہیں۔