
رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان فائرنگ اور تناؤ کی فضا کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا، جس سے سرحدی علاقوں میں معمولاتِ زندگی متاثر ہو گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طورخم بارڈر کی بندش کے باعث دونوں اطراف سے تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہو گئی ہیں جبکہ پیدل سفر کرنے والے مسافروں کی نقل و حرکت بھی روک دی گئی ہے۔ تمام مال بردار گاڑیوں کو لنڈی کوتل منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ کسی ممکنہ ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
اطلاعات کے مطابق سرحدی کشیدگی کے باعث دونوں جانب کے مقامی افراد اور تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ افغان اور پاکستانی شہری جو روزگار یا علاج کے سلسلے میں بارڈر پار کرتے تھے، اب پھنس کر رہ گئے ہیں۔
دوسری جانب مقامی قبائل نے دونوں حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ صورتحال کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ روزمرہ زندگی معمول پر آسکے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی طورخم بارڈر کو 21 فروری کو اس وقت بند کیا گیا تھا جب پاکستانی اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحدی تعمیراتی سرگرمیوں پر اختلافات پیدا ہوئے تھے۔
بعدازاں مارچ میں فائرنگ کے تبادلے میں 6 فوجیوں سمیت 8 افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ توپ خانے کی گولہ باری سے متعدد مکانات، ایک مسجد اور دفاتر کو نقصان پہنچا تھا۔
بعد ازاں قبائلی عمائدین کی مداخلت سے تعطل ختم کر دیا گیا تھا، مگر حالیہ فائرنگ کے بعد ایک بار پھر پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، جس کے باعث طورخم بارڈر بندش سے تجارتی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔