
سکیورٹی ذرائع کے مطابق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب افغان فورسز نے پاک افغان بارڈر پر انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بارام چاہ (بلوچستان) کے مقامات پر بِلا اشتعال فائرنگ کی، فائرنگ کا مقصد خوارج کی تشکیلوں کو بارڈر پار کروانا بھی تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان فوج کی چوکس اور مستعد پوسٹوں کی جانب سے تیزی کے ساتھ بھرپور اور شدید جواب دیا گیا جو آخری اطلاعات تک جاری رہا۔
پاک فوج نے فوری طور پر شدید رد عمل دیتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا، خوارج اور داعش کے دہشت گرد کیمپوں اور ہائیڈ اوٹس کو بھی انتہائی مہارت سے نشانہ بنا یا گیا۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بروقت کارروائی میں افغانستان کی متعدد بارڈر پوسٹیں تباہ اور درجنوں افغان فوجی اور خارجی ہلاک کر دئیے گئے، طالبان اپنی متعدد پوسٹیں چھوڑ کر بھی فرار ہو گئے، لاشیں بکھری ہوئی ہیں۔ خیال رہے افغانستان کی جانب سے یہ جارحیت اُس وقت کی جا رہی ہے جب افغان وزیر خارجہ ہندوستان کا دورہ کر رہے ہیں۔
دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا افغان فورسز کی شہری آبادی پر فائرنگ بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کی بہادر فورسز نے فوری اور مؤثر جواب دیا ہے، پاکستان کی فورسز نے ثابت کیا کہ کسی بھی اشتعال انگیزی کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔پاکستان کی فورسز چوکس ہیں اور افغانستان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشتگردوں کا حملہ، 4 شرپسند ہلاک
انہوں نے کہا کہ افغانستان آگ و خون کا جو کھیل کھیل رہا ہے اس کے تانے بانے ہمارے ازلی دشمن بھارت سے ملتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بہادر مسلح افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں، افغانستان کو بھی ہندوستان کی طرح منہ توڑ جواب دیا جائے گا، افغانستان کبھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کی جانب سے پاک افغان بارڈر پر افغانستان کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ کے بھرپور جواب کے بعد افغان فورسز بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئیں اور انہوں نے پاکستان سے بھاری جوابی کارروائی روکنے کی درخواست کر دی۔
دوسری جانب پاکستان نے افغان سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرتے ہوئے بھارت اور افغانستان کے درمیان 10 اکتوبر 2025 کو نئی دہلی میں جاری ہونے والے مشترکہ بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ افغانستان اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے میں جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ مشترکہ اعلامیہ نہ صرف اس خطے کے عوام کے احساسات کی توہین ہے بلکہ بھارتی غیر قانونی قبضے کے تحت جموں و کشمیر کے عوام کی حقِ خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کے خلاف بھی ایک اشتعال انگیز اقدام ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان نے افغان نگران وزیرِ خارجہ کے اس بیان کو بھی یکسر مسترد کیا جس میں انہوں نے دہشت گردی کو پاکستان کا "اندرونی مسئلہ" قرار دیا ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے بارہا ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ بات اجاگر کی ہے کہ "فتنہ الخوارج" اور "فتنہ الہندستان" سے وابستہ دہشت گرد عناصر افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں، جنہیں افغانستان کے اندر موجود بعض عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے ذمہ دار عناصر پر قابو پانے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے سے عبوری افغان حکومت اپنی علاقائی امن و استحکام کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ برادرانہ اسلامی تعلقات اور اچھے ہمسایہ ہونے کے جذبے کے تحت پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے تقریباً چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ اب جبکہ افغانستان میں امن بحال ہو رہا ہے ، غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی اپنے وطن واپسی کا وقت آ چکا ہے ، پاکستان کو دیگر ممالک کی طرح، اپنی سرزمین پر غیر ملکی شہریوں کی موجودگی کو منظم کرنے کا حق حاصل ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغان شہریوں کی طبی اور تعلیمی ضروریات کے پیشِ نظر طبی و تعلیمی ویزے بھی جاری کر رہا ہے ، اسلامی بھائی چارے اور اچھے ہمسایہ تعلقات کے جذبے کے تحت پاکستان افغان عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر تعاون جاری رکھے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم، علاقائی طور پر منسلک اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے ، اسی مقصد کے تحت پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارت، اقتصادی تعلقات اور رابطوں کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی ہے تاکہ دونوں ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو تقویت ملے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ذمہ دار ہے ، پاکستان کو توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے گی اور اپنی سرزمین کو "فتنہ الخوارج" اور "فتنہ الہندوستان" جیسے دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی۔