
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنا استعفیٰ ٹائپ شدہ شکل میں گورنر کو بھجوایا، جس پر انہوں نے صرف اپنے دستخط کیے، تاہم آئینِ پاکستان کی شق 130 کی کلاز (8) کے تحت وزیراعلیٰ کا استعفیٰ ہاتھ سے تحریر ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گورنر نے یہ ٹائپ شدہ استعفیٰ منظور کرلیا تو یہ عمل آئین کی خلاف ورزی تصور ہوگا، جو آئینی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ماضی میں تمام وزرائے اعلیٰ نے اپنے استعفے دستی طور پر تحریر کر کے جمع کرائے، اس لیے گنڈاپور کا یہ طرزِ عمل قانونی طور پر کمزور دکھائی دیتا ہے۔
آئینی ماہرین کی جانب سے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ وزیراعلیٰ کو استعفیٰ لکھنے کے وقت درست قانونی مشورہ کیوں نہیں دیا گیا؟ کیا انہیں آئینی تقاضوں سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا یا یہ عمل دانستہ طور پر کیا گیا؟
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی پارٹی کو پنجاب اسمبلی کی تمام کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کی ہدایت
قانونی حلقوں میں اب یہ بحث زور پکڑ چکی ہے کہ آیا گورنر خیبرپختونخوا اس استعفے کو آئینی بنیادوں پر قبول کر سکیں گے یا نہیں، اگر استعفیٰ کالعدم قرار پایا تو سیاسی بحران میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ گورنر اس قانونی پیچیدگی میں کیا فیصلہ کرتے ہیں، استعفیٰ منظور کرتے ہیں یا واپس بھجواتے ہیں؟