عمران خان کی رہائی کب ہوگی؟
عمران خان کی سپریم کورٹ سے 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت منظوری کے باوجود بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی ممکن نہیں
عمران خان کی سپریم کورٹ سے 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت منظوری کے باوجود بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی ممکن نہیں/ فائل فوٹو
(ویب ڈیسک) عمران خان کی سپریم کورٹ سے 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت منظوری کے باوجود بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی ممکن نہیں کیونکہ سابق وزیراعظم کے خلاف مزید درجنوں مقدمات ابھی باقی ہیں جن میں درخواستِ ضمانت دائر کی جانی ہے۔

تفصیلات کے مطابق عمران خان کے خلاف ستمبر، اکتوبر اور 26 نومبر کے واقعات سے متعلق تقریباً 43 مقدمات درج ہیں جن میں ابھی درخواستِ ضمانت زیر التوا ہے۔ یہ مقدمات راولپنڈی اور اٹک کے مختلف تھانوں میں درج ہیں، جبکہ وہ ان مقدمات میں نامزد ملزم بھی ہیں۔
اہم مقدمات میں 26 نومبر کا تھانہ ٹیکسلا میں پولیس اہلکار کے قتل کا کیس بھی شامل ہے جس میں عمران خان ملزم نامزد ہیں۔ اس کے علاوہ تھانہ ٹیکسلا، حسن ابدال، اٹک اور نصیر آباد سمیت مختلف تھانوں میں بھی مقدمات درج ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں بھی ان کے خلاف کئی کیسز چل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی 9 مئی کے مقدمات میں ضمانتیں منظور

عمران خان کی 9 مئی کے واقعات سے متعلق 12 مقدمات میں انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی عدالت پہلے ہی ضمانت منظور کر چکی ہے۔ اس کے باوجود باقی مقدمات کی وجہ سے وہ جیل سے باہر نہیں آ سکتے۔
مزید یہ کہ راولپنڈی کے آٹھ مقدمات میں وہ اب بھی جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ جب تک ان مقدمات میں بھی کوئی فیصلہ سامنے نہیں آتا، ان کی رہائی ممکن نہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق جب تک تمام مقدمات میں ضمانت نہیں ملتی یا عدالتیں بریت نہیں دیتیں، عمران خان کی رہائی صرف ایک قانونی امکان کے طور پر موجود ہے، عملی طور پر فوری رہائی ممکن نظر نہیں آ رہی۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ اور انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں سے ملنے والی ضمانتوں کے باوجود عمران خان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ باقی مقدمات ہیں۔ ہر مقدمہ الگ نوعیت کا ہے اور اس کے لیے علیحدہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال اہم ہے کہ تمام مقدمات کب تک نمٹتے ہیں اور کیا عدالتیں یکے بعد دیگرے ضمانتیں منظور کرتی ہیں۔