
اب جنگ کا منظر وہ نہیں جہاں ٹینک دھرتی کو روندتے ہیں یا فوجی دستے سرحدوں پر مہینوں خیمہ زن رہتے ہیں، بلکہ اب جنگ کی اصل طاقت آسمانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ ایک لمحے میں سینکڑوں میل دور بیٹھا دشمن اچانک اپنے میزائل داغ دیتا ہے اور چند ہی سیکنڈز میں شہروں کے دفاعی نظام، ایئربیسز اور کمانڈ سنٹرز ملبے کا ڈھیر بن سکتے ہیں۔ مستقبل کی جنگ میں حملہ آور فوج کے بوٹ زمین پر پڑنے سے پہلے ہی فیصلہ کن نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
ایسے دور میں جنگ کا مطلب صرف ہتھیاروں کی گھن گرج نہیں بلکہ لمحوں میں فیصلہ کرنے، دشمن کے حملے کو بھانپنے اور فوراً مؤثر جواب دینے کی صلاحیت ہے۔ اب وہ ملک برتری حاصل کرے گا جو کم وقت میں زیادہ دور تک مار کرنے والے اور درست نشانہ لگانے والے ہتھیار رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی افواج اپنی حکمتِ عملی کو توپ خانوں سے ہٹا کر راکٹ اور میزائل فورسز کی طرف منتقل کر رہی ہیں۔ چین، بھارت اور روس پہلے ہی اس نئے تصور پر عمل کر رہے ہیں جہاں جنگ کو زمینی محاذ پر نہیں بلکہ دور مار کرنے والے ہتھیاروں سے جیتا جا رہا ہے۔
پاکستان بھی جانتا ہے کہ بدلتے اصولوں میں روایتی تیاری کافی نہیں۔ دشمن کے کسی بھی حملے کو لمحوں میں ناکام بنانے کے لیے ایک ایسا نظام درکار تھا جو فوری فیصلے، درست نشانے اور مربوط طاقت فراہم کرے۔ اسی تناظر میں پاکستان نے آرمی راکٹ فورس کمانڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ صرف ایک نئی کمانڈ نہیں بلکہ مستقبل کی جنگ کا وہ ہتھیار ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اب پاکستان دفاع میں پیچھے نہیں بلکہ زمانے کے بدلتے اصولوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھ رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے 13 اگست کی شب، پاکستان کے 78ویں یومِ آزادی سے ایک دن قبل ایک نہایت اہم اعلان کیا کہ پاکستانی فوج میں ایک نئی کمانڈ قائم کی جا رہی ہے جسے "پاکستان آرمی راکٹ فورس کمانڈ" کا نام دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے بقول یہ کمانڈ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو گی اور پاکستان کی دفاعی طاقت کو ایک نئی بلندی پر لے جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام محض ایک عسکری فیصلہ نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔
اگرچہ اس نئی فورس کے بارے میں فوج یا حکومت کی جانب سے مزید تفصیلات ابھی جاری نہیں کی گئیں، لیکن ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کی ایک بھرپور حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ دنیا نے یوکرین اور روس کی جنگ، اسرائیل اور ایران کی کشمکش، اور بالخصوص پاکستان و بھارت کے درمیان حالیہ تصادم میں دیکھا کہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل جنگ میں کس قدر مؤثر، کم خرچ اور فوری ردعمل دینے والے ہتھیار ہیں۔
پاکستان آرمی راکٹ فورس کمانڈ کا قیام اس سوچ کی توسیع ہے۔ فوج جان چکی ہے کہ درمیانے فاصلے کے میزائل دشمن کو روکنے، کم خرچ مگر مہلک جوابی کارروائی کرنے، اور بیک وقت درجنوں اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے جو پاکستان کے دفاع کو نہ صرف آج بلکہ آنے والے برسوں میں بھی مضبوط اور ناقابلِ تسخیر بنائے گی۔
پاکستان میں "راکٹ فورس کمان" کے قیام کا سوال اس وقت سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس بارے میں باضابطہ طور پر کوئی تفصیل فراہم نہیں کی، لیکن سیکیورٹی ایکسپرٹس کے مطابق اس نئی فورس کا قیام براہِ راست بھارت کے ساتھ حالیہ تنازع اور خطے کے بدلتے ہوئے عسکری حالات سے جڑا ہے۔
ان ماہرین کے مطابق بھارت کے ساتھ حالیہ لڑائی نے پاکستانی فوج کو یہ سبق دیا کہ روایتی جنگ کے دوران درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے راکٹس اور گائیڈڈ میزائل فوری اور بھرپور جواب دینے کے لیے نہایت مؤثر ہیں۔ لیکن ان کے استعمال کو منظم اور زیادہ کارگر بنانے کے لیے ایک علیحدہ کمانڈ ناگزیر تھی، تاکہ جنگی حالات میں بروقت فیصلے ممکن ہو سکیں اور دشمن کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا جا سکے۔
سیکیورٹی ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ "فتح" سیریز کے میزائلوں نے حالیہ جنگ میں اپنی صلاحیت اور مہلک اثرات ثابت کیے۔ اسی تجربے نے یہ بات واضح کی کہ اس شعبے کو الگ حیثیت دے کر مزید ترقی دینا پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی کے لیے ضروری ہے۔ اب پاکستانی فوج کے پاس تین بڑے ڈھانچے ہوں گے: روایتی توپ خانہ، سٹریٹیجک کمان فورس، اور نئی راکٹ فورس کمان۔
سٹریٹیجک کمان بنیادی طور پر نیوکلیئر ہتھیاروں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے میزائلوں پر مشتمل ہے، جن کے استعمال کا فیصلہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کرتی ہے۔ اس کے برعکس نئی راکٹ فورس کمان روایتی جنگ کے دوران درمیانے فاصلے کے میزائلوں کے فوری اور بھرپور استعمال کے لیے بنائی جا رہی ہے تاکہ پاکستان اپنی دفاعی اور جارحانہ صلاحیتوں کو مزید مستحکم بنا سکے۔
پاکستانی فوج کا ڈھانچہ مختلف کورز پر مشتمل ہے اور ہر کور کی اپنی ایک الگ ذمہ داری ہے۔ مثال کے طور پر آرمرڈ کور میدانِ جنگ میں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ سب سے آگے بڑھتی ہے اور دشمن کی رکاوٹوں کو توڑ کر راستہ بناتی ہے۔ انفینٹری کور وہ بنیادی قوت ہے جو زمین پر قبضہ کرتی ہے، دفاع کرتی ہے اور محاذ پر سب سے زیادہ قربانیاں دیتی ہے۔ اسی طرح ایئر ڈیفنس کمانڈ کا کام ہے کہ دشمن کے طیاروں، ڈرونز اور میزائلز کو فضا ہی میں نشانہ بنایا جائے تاکہ وہ پاکستانی سرزمین تک نہ پہنچ سکیں۔ توپ خانہ یا آرٹلری ڈویژنز میدانِ جنگ میں دور سے گولہ باری کرتے ہیں اور دشمن کی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے گوجرانوالہ اور پنوں عاقل میں موجود آرٹلری ڈویژنز طویل اور قریبی فاصلے کے توپ خانوں سے لیس ہیں اور میدان میں موجود زمینی افواج کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ انجینئرنگ کور جنگ کے دوران پل اور راستے بناتے ہیں یا رکاوٹیں دور کرتے ہیں جبکہ سگنل کور فوجی رابطے قائم رکھنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح ہر کور ایک الگ ذمہ داری ادا کرتا ہے لیکن سب مل کر فوجی حکمتِ عملی کو مکمل کرتے ہیں۔
ان سب کے ساتھ اب راکٹ فورس کمان ایک بالکل نیا اضافہ ہے جو دیگر کورز سے مختلف ذمہ داری نبھائے گی۔ یہ کمان نیوکلیئر ہتھیاروں والی سٹریٹیجک فورس کی طرح نہیں بلکہ صرف روایتی جنگ کے لیے مخصوص ہوگی۔ اس کا بنیادی مقصد درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ اور گائیڈڈ میزائلوں کو استعمال میں لانا ہے تاکہ جنگ کے دوران دشمن کے اہم اہداف کو دور سے نشانہ بنایا جا سکے۔ توپ خانہ عام طور پر قریب یا محدود فاصلے میں مدد فراہم کرتا ہے لیکن راکٹ فورس کمان اس سے کہیں زیادہ فاصلے پر اور زیادہ درستگی کے ساتھ حملے کر سکے گی۔ حالیہ تنازع میں جب پاکستان نے اپنے موبائل لانچرز سے فتح ون اور فتح ٹو میزائل استعمال کر کے دشمن کے اڈوں اور دفاعی نظام کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ایسے ہتھیار جنگ کے نتیجے کو تیزی سے بدل سکتے ہیں۔ اسی تجربے کی بنیاد پر فوج نے فیصلہ کیا کہ ان ہتھیاروں کو ایک مستقل کمانڈ کے تحت منظم اور مربوط کیا جائے تاکہ فیصلے جلدی ہوں، لانچ فوری ممکن ہو اور روایتی جنگ میں ایک نئی طاقت شامل کی جا سکے۔ اس نئی کمانڈ کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں فتح جیسے میزائل محض علامتی یا تجرباتی نہیں رہیں گے بلکہ باقاعدہ جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہوں گے اور پاکستان کی دفاعی طاقت کو نئی سطح پر لے جائیں گے۔
پاکستانی فوج کی یہ نئی راکٹ فورس کمان اس لیے بھی اہم سمجھی جا رہی ہے کہ اس کے تحت ان میزائلوں کا استعمال زیادہ منظم اور آسان ہوگا جو پہلے آرٹلری ڈویژنز کے پاس تھے لیکن ان کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا تھا۔ مثال کے طور پر فتح ون اور فتح ٹو جیسے راکٹ سسٹمز، جن کی رینج بالترتیب تقریباً 150 کلومیٹر اور 400 کلومیٹر تک ہے، اب اسی کمانڈ کے تحت براہ راست اور تیز رفتار فیصلوں کے ساتھ لانچ کیے جا سکیں گے۔ ماضی میں ان کا استعمال محدود اور بکھرا ہوا تھا لیکن اب ایک علیحدہ ہیڈ کوارٹر انہیں ایک مربوط قوت میں بدل دے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ راکٹ فورس کمان مستقبل میں پاکستان کے کروز میزائلوں کے استعمال کو بھی زیادہ موثر بنا سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس بابر کروز میزائل سیریز موجود ہے، جو زمین سے زمین اور زمین سے سمندر تک مار کر سکتا ہے۔ یہ میزائل انتہائی درستگی رکھتے ہیں اور دشمن کے ریڈار سے بچ کر اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح رعد کروز میزائل ہوا سے داغا جاتا ہے اور طویل فاصلے تک انتہائی درستگی سے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ اگرچہ یہ زیادہ تر ایئر فورس کے زیر استعمال ہیں لیکن مستقبل میں راکٹ فورس کمان ان جیسے ہتھیاروں کو زمینی لانچ پلیٹ فارمز سے زیادہ منظم طریقے سے استعمال کر سکے گی۔
بیلسٹک میزائلوں کے میدان میں بھی پاکستان کے پاس شاندار صلاحیت موجود ہے۔ غزنوی اور شاہین سیریز کے میزائل درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ سٹریٹیجک کمانڈ کے تحت ہیں اور ایٹمی وار ہیڈ لے جا سکتے ہیں، لیکن ان کے روایتی ورژنز دشمن کے بڑے اڈوں، انفراسٹرکچر اور جنگی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ راکٹ فورس کمان ان بیلسٹک میزائلوں کے روایتی استعمال کو زیادہ مربوط اور فوری ردعمل کے قابل بنائے گی، تاکہ دشمن پر دباؤ بڑھایا جا سکے لیکن ایٹمی جنگ کا تاثر نہ دیا جائے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نئی کمان کے قیام کے بعد پاکستان کے پاس ایک ایسا ادارہ ہوگا جو درمیانے فاصلے کے راکٹس، کروز میزائلوں اور بیلسٹک میزائلوں کے روایتی ورژنز کو منظم اور مربوط انداز میں استعمال کرے گا۔ اس سے نہ صرف فیصلے جلدی ہوں گے بلکہ ہتھیاروں کا استعمال بھی زیادہ مہارت اور درستگی کے ساتھ ممکن ہوگا۔ فتح ون اور فتح ٹو جیسے سسٹمز فوری جنگی ضرورت کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے، بابر جیسے کروز میزائل دشمن کی دفاعی لائن کو بائی پاس کر کے نشانہ بنائیں گے، اور شاہین یا غزنوی جیسے میزائل دشمن کے بڑے اور دور کے اہداف کو کم وقت میں تباہ کر سکیں گے۔ اس طرح راکٹ فورس کمان پاکستان کی روایتی جنگی حکمتِ عملی کو ایک نئی اور زیادہ طاقتور جہت دے گی۔
ایشیا میں راکٹ فورسز کا قیام محض جدید اسلحے کی دوڑ نہیں بلکہ مخصوص تاریخی حالات اور جنگی تجربات کا نتیجہ ہے۔ سب سے پہلے سوویت یونین نے سرد جنگ کے ابتدائی برسوں میں اپنی اسٹریٹیجک راکٹ فورس قائم کی۔ 1959 میں اس فورس کی تشکیل کا مقصد امریکہ اور نیٹو کے خلاف ایک ایسا ہتھیار تیار کرنا تھا جو دور سے، تیز اور مہلک حملہ کر سکے اور جس پر دشمن کی فضائیہ یا توپ خانہ قابو نہ پا سکے۔ یہی فورس بعد میں روسی فیڈریشن کے دفاعی ڈھانچے کا بنیادی ستون بنی اور آج بھی روس کی نیوکلئیر صلاحیت اسی پر انحصار کرتی ہے۔ اس تاریخی پس منظر سے واضح ہوتا ہے کہ روسی ماڈل بنیادی طور پر اسٹریٹیجک ڈیٹرنس کے لیے بنایا گیا تھا۔
چین نے اپنی راکٹ فورس کا باقاعدہ قیام 1966 میں کیا، جسے اُس وقت "Second Artillery Corps" کہا جاتا تھا۔ اس فورس کے قیام کی بڑی وجہ 1962 کی چین-انڈیا جنگ اور اس کے فوراً بعد چین اور سوویت یونین کے تعلقات میں کشیدگی تھی۔ چین نے یہ سمجھا کہ اگر وہ خطے میں اپنی خودمختاری قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے ایک علیحدہ میزائل فورس کی ضرورت ہے۔ 2015 میں اسے نئے نام "پیپلز لبریشن آرمی راکٹ فورس" کے تحت مزید اختیارات دیے گئے اور آج یہ فورس نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی میزائل فورس سمجھی جاتی ہے۔
انڈیا نے راکٹ فورس کے قیام پر نسبتاً دیر سے توجہ دی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انڈیا روایتی طور پر اپنی فضائیہ اور توپ خانے پر زیادہ انحصار کرتا رہا۔ تاہم 1999 کی کارگل جنگ اور بعد میں 2019 کے پلوامہ حملے اور بالاکوٹ تنازع نے دہلی کو یہ احساس دلایا کہ اسے ایک علیحدہ فورس کی ضرورت ہے جو دشمن کے اندر گہرائی تک حملہ کر سکے۔ اسی تناظر میں 2021 کے بعد انڈیا نے اپنی انٹیگریٹڈ راکٹ فورس کے قیام پر کام تیز کیا اور 2023 میں درمیانی رینج کے نئے میزائل متعارف کرائے۔ یہ فیصلہ براہ راست پاکستان اور چین دونوں کے خلاف حکمت عملی سے جڑا ہوا ہے تاکہ زمینی سطح پر فوری اور کم خرچ کارروائی کی جا سکے۔
پاکستان میں آرمی راکٹ فورس کمانڈ کا اعلان 2024 میں ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب انڈیا کے ساتھ حالیہ تنازع نے یہ واضح کر دیا کہ روایتی توپ خانہ اور ائیر فورس اکیلے جنگ کی نئی نوعیت کو نہیں سنبھال سکتے۔ 10 مئی کے حملوں اور پاکستان کے جوابی ردعمل نے فوج کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل جیسے فتح ون اور فتح ٹو محض ایک ڈویژن یا محدود کمانڈ کے تحت نہیں بلکہ ایک علیحدہ اور مربوط فورس کے ذریعے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کا ماڈل انڈیا کے قریب نظر آتا ہے لیکن اس میں چین کے انداز کی جھلک بھی شامل ہے کیونکہ پاکستان اپنی فورس کو مکمل طور پر ایک علیحدہ کمانڈ اور تیز تر فیصلہ سازی کے تابع کر رہا ہے۔
یوں تاریخی طور پر دیکھا جائے تو روس نے راکٹ فورس کو عالمی طاقت بننے کے لیے بنایا، چین نے خطے میں اپنی بقا اور اثرورسوخ کے لیے تشکیل دیا، انڈیا نے اسے پاکستان اور چین کے خلاف تیز رفتار اور کم خرچ حملوں کے لیے بنایا جبکہ پاکستان نے اپنے حالیہ جنگی تجربے سے سیکھ کر اسے فوری اور مربوط دفاعی ضرورت کے طور پر کھڑا کیا۔ اس تقابلی جائزے سے یہ بھی واضح ہے کہ اگرچہ ہر ملک نے اپنے حالات کے مطابق ماڈل اپنایا، لیکن سب کا مقصد ایک ہی رہا کہ جنگ کے دوران دشمن پر سبقت لی جا سکے اور کسی بھی روایتی یا غیر روایتی خطرے کا فوری جواب دیا جا سکے۔