خط میں کہا گیا کہ بیرون ملک ہونے کے باعث اجلاس میں شرکت نہیں کر سکوں گا، ماضی کی روایت کے مطابق ممبران کی عدم دستیابی پر اجلاس ملتوی ہوتے رہے، میری عدم موجودگی میں اجلاس ہوا تو میری رائے کو اجلاس کا حصہ بنایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین ججز کی ٹرانسفر آئینی قرار
جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلے تک کوئی پالیسی نہ بنائی جائے، آئینی بنچز میں ججز کی شمولیت 26 ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک روک دی جائے، ایگزیکٹیو کی عدالتی امور میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن ایگزیکٹیو کے کنٹرول میں ہے۔
خط میں سوال اٹھایا گیا کہ آئینی بنچز میں میرٹ کے بغیر مرضی کے ججز شامل کیے جارہے ہیں، اس طرح کے اقدامات عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو ختم کر دیں گے، 26 ویں ترمیم کیس کے فیصلے تک آئینی بنچز کو توسیع نہ دی جائے، پیشگی بتا دیا تھا 19 جون کے اجلاس کیلئے پاکستان میں دستیاب نہیں، توقع تھی عدم دستیابی پر اجلاس موخر کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے جج نے خط میں کہا کہ ماضی میں ایگزیکٹیو ممبران کی عدم موجودگی پر اجلاس موخر ہو چکا، عدلیہ کے ممبران اقلیت میں ہیں اس لیے شاید اجلاس موخر نہیں کر پائے، 26 ویں ترمیم کا تنازعہ ادارے کی ساکھ اور اس پر عوامی اعتبار کو تباہ کر رہا ہے، 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک تمام ججز کو آئینی بنچ ڈکلئیر کیا جائے، آئینی بنچ میں شمولیت کا معیار اور پیمانہ بھی طے کیا جائے۔