کوٹ ادو میں شبِ سخن عید ملن مشاعرہ، ایک تہذیبی جشن
Kot Addu Mushaira
فائل فوٹو
کوٹ ادو:(کاشف ندیم) کوٹ ادو کی ایک پرکیف، خوشبو دار اور شاعرانہ رات، جہاں لفظ بولے، خیال مہکے، اور جذبے لہجے میں ڈھل گئے۔ یہ عید کے بعد کی وہ خاص شام تھی، جو ادب، تہذیب، روایت اور جذبے کا امتزاج بن گئی۔

یہ عید ملن مشاعرہ صرف اشعار کی ایک محفل نہیں تھا، بلکہ ادبی ذوق کی تجدید، نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی، اور فنِ شاعری کے تسلسل کا ایک زندہ ثبوت تھا۔

 اس شاندار مشاعرے کا اہتمام خالد جاوید، آصف اعوان، اسامہ خالد، عدنان کیف، فرخ اور علی عارف نے کیا، جنہوں نے اپنے اخلاص، انتظامی صلاحیت اور ادب سے محبت کے ذریعے ایک ایسی محفل سجا دی جس کی بازگشت دیر تک سنائی دیتی رہے گی۔

 خوشبوؤں سے سجی بزمِ سخن میں اردو اور سرائیکی زبانوں کے معروف اور ابھرتے ہوئے شعرا نے شرکت کی۔ ہر شاعر اپنے ساتھ ایک لہجہ، ایک زاویہ اور ایک جہت لے کر آیا۔ اس محفل کو مختلف شعرا نے اپنے کلام سے سجایا، جن میں سعد جہانگیر، انس فرید، عادل ملانہ، عزیز اکبر، شہباز مہروی، اشرف رافت، علی عباس شاہ، عابد بلال، نوشین فاطمہ، قاسم راز، ذوالفقار عادل، ذیشان اطہر، عزیز شاہد شامل تھے۔

 ان شعرا کی شرکت نے محفل کو فکری تنوع، اسلوبی رنگارنگی، اور لہجے کی گہرائی عطا کی۔ خاص طور پر ذوالفقار عادل کے اشعار میں تازگی، عزیز شاہد کے کلام میں لوک دانش، نوشین فاطمہ کے اشعار میں نسائی جمالیات اور ذیشان اطہر کی شاعری میں کلاسیکی روایت کی بازگشت سنائی دی۔

 اس بار مشاعرہ محض کلام کی پیشکش تک محدود نہیں رہا، بلکہ شعرا کے خیالات بھی سامنے آئے، جنہوں نے محفل کی معنویت میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔

خالد جاوید نے کہا:

 مشاعرہ منعقد کرنے کا مقصد صرف محفل سجانا نہیں بلکہ ادب کو فروغ دینا، نوجوان شعرا کو اظہار اور سیکھنے کا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔

 ذیشان اطہر نے روایتی جذبے کے ساتھ کہا:

 مشاعرے کی روایت کو برقرار رکھنا ہمارے ادبی تشخص کی علامت ہے، اور ایسے مواقع پر نوجوان نسل کو ادب سے جوڑنا بہت ضروری ہے۔

 نوشین فاطمہ نے نہایت گہرا اور طنزیہ نکتہ اٹھایا:

 لوگ ہمیں سننے نہیں، دیکھنے آتے ہیں، مگر جب اشعار سنتے ہیں تو نظریں بھی جھک جاتی ہیں اور خاموشیاں بھی بول اٹھتی ہیں۔"

 عزیز شاہد کا تبصرہ بے حد اہم اور فکری تھا:

 اس طرح کی محافل کا آغاز سندھ کی لوک روایت سے ہوا تھا، جہاں لوگ پہلیاں، قصہ گوئی اور اشعار سناتے تھے۔

 آج کا دکھ یہ ہے کہ تماشہ وال نہیں رہے، صرف تماش بین رہ گئے ہیں۔ یہ روایت مانند پڑ رہی ہے، جس پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

 مشاعرے میں دانشور، اساتذہ، اور ادبی حلقے کے معزز افراد بھی موجود تھے، جنہوں نے شعرا کو کھل کر داد دی۔ ان میں خاص طور پر رضوان ظفر گورمانی، رانا منیب، پروفیسر آفتاب ڈوگر، پروفیسر تصدق حسین، اور پروفیسر زبیر احمد شامل تھے۔ ان کی موجودگی محفل کے وقار میں اضافے کا باعث بنی۔

 محفل کے اختتام پر شرکا کے لیے پرتکلف عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ یہ روایتی مہمان نوازی ادب کے وقار اور تہذیبی شعور کا مظہر تھی۔ شعرا اور حاضرین نے ضیافت میں شرکت کو اسی قدر سراہا، جس قدر اشعار کو پسند کیا گیا۔