
خاندانی ذرائع کے مطابق ان کی طبیعت کافی عرصے سے ناساز تھی، اور حال ہی میں ان کے مہروں (Spine Discs) کا آپریشن ہوا تھا، جس کے بعد وہ مسلسل تکلیف میں رہے۔ اس سے قبل بھی انہیں دل کی تکلیف لاحق ہوئی تھی جس کے نتیجے میں ان کا بائی پاس سرجری کرائی گئی تھی۔
پروفیسر ساجد میر نے ساری زندگی دینِ اسلام کی خدمت، علم کی اشاعت اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی زندگی کا آغاز قرآنی تعلیمات سے ہوا، جب انہوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر، جنہیں وہ کبھی دیکھ نہیں سکے، رسمی تعلیم چھوڑ کر قرآن پاک حفظ کیا۔ 1963ء میں انہوں نے پہلی مرتبہ تراویح کی نماز میں تلاوت سنائی، جس کے بعد دینی میدان میں ان کا سفر بھرپور انداز سے شروع ہوا۔
مرحوم نے نہ صرف علمی خدمات انجام دیں بلکہ سیاست میں بھی ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے 1994ء میں انہیں پہلی مرتبہ پنجاب سے سینیٹ کا رکن منتخب کرایا۔ اس کے بعد وہ کئی مرتبہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور ملکی سیاست میں ایک باوقار اور معتدل مزاج رہنما کے طور پر جانے گئے۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا تھا جنہوں نے بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے تیار کیے گئے ضابطہ اخلاق کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پروفیسر ساجد میر کا پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان خوشگوار تعلقات کی مضبوطی میں بھی اہم کردار رہا۔ وہ کئی سال نائیجیریا میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور 1985ء میں وطن واپس آکر دینی، تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں کو مزید وسعت دی۔ ان کی وفات پر مختلف دینی، سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے۔



