''کیا عمران خان نے 9 مئی واقعات کی مذمت کی ہے کہ یہ غلط ہوا ؟''
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے کیس میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کیا بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 9 مئی واقعات کی مذمت کی ہے کہ یہ غلط ہوا ؟ کیا عدالت میں اپنے تحریری جواب میں مذمت کی گئی ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان/ فائل فوٹو
اسلام آباد: (سنو نیوز) فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے کیس میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کیا بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 9 مئی واقعات کی مذمت کی ہے کہ یہ غلط ہوا ؟ کیا عدالت میں اپنے تحریری جواب میں مذمت کی گئی ہے ؟

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کالعدم ہوگیا تو بھی انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے، ایک سے زائد فورمز موجود ہوں تو دیکھنا ہوگا کہ ملزم کے بنیادی حقوق کا تحفظ کہاں یقینی ہوگا، آئین کا آرٹیکل 245 فوج کو عدالتی اختیارات نہیں دیتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کورٹ مارشل عدالتی کاروائی نہیں ہوتا ؟ جس پر وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ کورٹ مارشل عدالتی اختیار ہوتا ہے لیکن صرف فوجی اہلکاروں کیلئے سویلنز کیلئے نہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سویلنز کی ایک کیٹیگری بھی آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے، یہ تفریق کیسے ہوگی کہ کونسا سویلن آرمی ایکٹ میں آتا ہے اور کون نہیں، آرٹیکل 245 کا حوالہ تو اس کیس میں غیر متعلقہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں فوج کو دو طرح کے اختیارات دیئے گئے ہیں، ایک اختیار دفاع کا ہے اور دوسرا سول حکومت کی مدد کرنے کا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی ؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہو تو کیا آرٹیکل 245 کے نوٹیفیکیشن کا انتظار کیا جائے گا ؟۔

عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ کوئی گولیاں چلا رہا ہو تو دفاع کیلئے کسی کی اجازت نہیں لینی پڑتی، جب حملہ ہو تو پولیس اور فوج سمیت تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں، سپریم کورٹ ماضی میں لیاقت حسین کیس میں یہ نکتہ طے کر چکی ہے، عدالت قرار دے چکی فوج اگر کسی حملہ آور کو گرفتار کرے گی تو سول حکام کے حوالے کیا جائے گا، فوج پکڑے گئے بندے کے حوالے سے سول حکام کی معاونت ضرور کر سکتی ہے، ہر ادارے کو اختیارات آئین سے ہی ملتے ہیں۔

جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ اگر فوجی اور سویلن مل کر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ٹرائل کہاں ہوگا ؟ جس پر وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ایسی صورت میں ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہی ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آجائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا، آئین میں واضح لکھا ہے کہ یہ آرمڈ فورسز سے متعلقہ قانون ہے۔ وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل 8 کا ذیلی سیکشن 3 صرف آرمڈ فورسز کیلئے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سویلین آفیسر کیخلاف تادیبی کاروائی میں سزا کا اختیار نہیں دیا گیا، ملٹری کورٹ میں سزا کا اختیار دیا گیا ہے، آرمی آفیسر چھٹی پر ہوتے ہوئے جرم سرزد کرے تو ٹرائل کہاں ہوگا، ملٹری کورٹ کا اختیار بہت وسیع ہے یا محدود ہے، کراچی میں رینجرز اہلکاروں کا ٹرائل سول کورٹ میں ہوا، آئین پارلیمنٹ بناتی ہے، قانون سازی آئین کے مطابق ہی ہو سکتی ہے، کوئی قانون جو آئین سے مطابقت نہ رکھے نہیں بنایا جا سکتا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف بی علی کیس اتنا اہم کیوں ہے، ایف بی علی کیس کے پریذائیڈنگ آفیسر نے خود کر کیا کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارا المیہ یہی ہے کہ قانون کو سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے عمران خان کی جانب سے 9 مئی کی مذمت سے متعلق سوال کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں کرفیو لگنے پر فوج آتی تھی تو لوگ پھول پھینکتے تھے، ایک ہی دن میں جی ایچ کیو سمیت مختلف مقامات پر حملے ہوئے، آپ سابق وزیراعظم اور ایک پارٹی لیڈر کے وکیل ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری سے سوال کیا کہ کیا سابق وزیراعظم نے 9 مئی واقعات کی مذمت کی ہے کہ یہ غلط ہوا ؟ کیا عدالت میں اپنے تحریری جواب میں مذمت کی گئی ہے ؟ جس پر وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی متفرق درخواست عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، بانی پی ٹی آئی نے 9 مئی کی مذمت اپنی تحریری معروضات میں کی ہے، بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے جو ذمہ دار ہیں انہیں سزا دی جائے، مذمت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ بانی پی ٹی آئی سرکاری موقف تسلیم کرتے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ مذمت کرنا اچھی بات ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کوئی وزیراعظم اپنی مقررہ مدت سے زیادہ عہدے پر رہ سکتا ہے ؟ جس پر وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ پانچ سال کیلئے آنے والا وزیراعظم چھ سال نہیں رہ سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر آپ فوجیوں کی حد تک کورٹ مارشل درست مانتے ہیں تو بات آرٹیکل 175 کے دائرے سے باہر نکل گئی، ذاتی طور پر جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، ہر وکیل کے دلائل مختلف ہیں سب کو اکٹھا کرنے کیساتھ عدالتی فیصلہ بھی دیکھنا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں سب مل کر ملبہ ہمارے گلے ڈالیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا خیال ہے بنچ وکلاء کے دلائل کو مکس کر رہا ہے، سلمان اکرم راجہ نے بھارت میں کورٹ مارشل کیلئے الگ فورم کی بات کی تھی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میری نظر میں سلمان اکرم راجہ کا موقف مختلف تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت دلائل کی پابند نہیں آئین کے مطابق خود بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔

عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ فوج آرٹیکل 245 کے علاوہ سویلنز کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی، اگر کوئی خفیہ اختیار فوج کو ہے تو دکھا دیں ہم مان لیں گے، سویلین حکام ہر صورت میں فوج سے بالاتر ہوتے ہیں، کمانڈنگ افسر کا ملزمان کی حوالگی لینا فوج کی سویلین پر بالادستی کے مترادف ہے۔