مظاہرین کا علی امین گنڈاپور کی گاڑی پر پتھراؤ
November, 28 2024
اسلام آباد:(ویب ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں جاری احتجاج کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، جہاں مظاہرین نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی گاڑی پر پتھراؤ کیا۔
واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس پر مختلف ردعمل سامنے آئے۔
مظاہرین کی ناراضی اور گاڑی پر حملہ:
احتجاج کے دوران مظاہرین اس وقت مشتعل ہو گئے جب علی امین گنڈاپور نے احتجاجی ہجوم کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ کارکنان نے ان کی گاڑی پر لاتیں ماریں اور پتھر پھینکے، جس سے صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔ مظاہرین کا الزام تھا کہ علی امین کارکنان کو بے یار و مددگار چھوڑ کر وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو پر تبصرے:
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے کیے گئے۔ ایک صحافی نے اسے شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ پی ٹی آئی قیادت کے اپنے کارکنان سے تعلقات پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ علی امین اور بشریٰ بی بی نے سرکاری گاڑیوں میں بیٹھ کر مظاہرین کو چھوڑ دیا، جو قیادت کی غیر ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔
علی امین کے حامیوں کی وضاحت:
کچھ سوشل میڈیا صارفین نے علی امین گنڈاپور کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ مظاہرین نہیں بلکہ نامعلوم افراد تھے جو پی ٹی آئی کے ہجوم میں شامل ہو کر نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ قیادت کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہو سکتی ہے۔
پہلے بھی ہجوم نے مزاحمت کی:
اس سے قبل بھی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں دیکھا گیا کہ علی امین گنڈاپور کی گاڑی کو مظاہرین نے جانے سے روک دیا۔ کچھ مظاہرین نے گاڑی پر چڑھ کر لاتیں ماریں، جبکہ ایک کارکن نے پانی کی بوتل پھینکی جو علی امین کو جا لگی۔
خطاب کی ناکام کوشش:
علی امین گنڈاپور نے دو بار گاڑی سے باہر نکل کر مظاہرین کو مخاطب کرنے کی کوشش کی، لیکن کارکنان نے ان کی بات سننے کے بجائے ڈی چوک جانے کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ مظاہرین کی جانب سے شدید دباؤ کے باعث علی امین کو واپس گاڑی میں جانا پڑا، اور وہ خطاب نہ کر سکے۔
یہ واقعہ احتجاجی تحریک میں قیادت اور کارکنان کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔
مزید تحقیقات کے بغیر اس واقعے کے اصل محرکات کا پتہ لگانا مشکل ہے، لیکن یہ واقعہ تحریک انصاف کی قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔