لاہور:عدالت نے توہین قرآن کے ملزم کو باعزت بری کر دیا
Sessions Court Lahore honorably acquitted the accused of blasphemy
لاہور:(رپورٹ، وقاص اعوان)لاہور کی سیشن کورٹ نے توہین قرآن کے مقدمے میں نامزد ملزم محمد خلیل کو بری کر دیا۔
 
 ایڈیشنل سیشن جج ماجد وقار نے اس کیس کا 8 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں پراسیکیوشن کے الزامات اور ملزم کے دفاع پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔
 
کیس کا پس منظر:
 
پراسیکیوشن کے مطابق، ستمبر 2020 ء میں ملزم محمد خلیل پر قرآن مجید کے کچھ حصوں کو جلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے اس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 بی کے تحت مقدمہ درج کیا۔ دوران تفتیش، پولیس نے بتایا کہ ملزم نے اعتراف کیا کہ اس نے غلطی سے قرآن مجید جلایا تھا۔
 
ملزم کا موقف:
 
ملزم محمد خلیل نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ وقوعے کے دن اسے ایک شاپنگ بیگ جلتا ہوا محسوس ہوا، جس کے بعد وہ پانی کی بالٹی لے کر آیا تاکہ آگ بجھا سکے۔ تاہم، شکایت کنندہ رمضان نے اس پر الزام عائد کر دیا کہ اس نے قرآن مجید کو جلایا ہے۔ ملزم کا کہنا تھا کہ رمضان کے اس الزام کے بعد لوگ وہاں جمع ہوگئے اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
 
الزامات کی نوعیت:
 
ملزم نے عدالت میں اپنے بیان میں مزید کہا کہ شکایت کنندہ رمضان نے پرانے تنازعات کی بنا پر اس پر یہ الزام لگایا تھا۔ اس کے مطابق، رمضان کے ساتھ ماضی میں کچھ ذاتی نوعیت کے جھگڑے ہوئے تھے، جن کے باعث اس نے اسے نشانہ بنایا۔ 
 
دوران سماعت، ایک گواہ نے اعتراف کیا کہ وہ ناخواندہ ہے اور قرآن مجید پڑھنے سے قاصر تھا، اس لیے وہ یہ تصدیق نہیں کر سکتا کہ جلائے جانے والے کاغذات قرآن مجید کے تھے یا نہیں۔
 
پراسیکیوشن کے دلائل:
 
پراسیکیوشن نے دعویٰ کیا کہ ملزم نے جان بوجھ کر قرآن مجید کے کچھ حصوں کو جلایا۔ تاہم، دوران سماعت ایک اہم گواہ اس بات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا کہ جلائے جانے والے کاغذات عربی زبان میں تھے یا نہیں۔ 
 
اس کے علاوہ، شکایت کنندہ رمضان نے خود ضمانت کی سماعت کے دوران یہ اعتراف کیا کہ ملزم نے جان بوجھ کر قرآن مجید نہیں جلایا تھا، بلکہ یہ ایک غیر ارادی عمل تھا۔
 
عدالت کا فیصلہ:
 
ایڈیشنل سیشن جج ماجد وقار نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس کیس میں پراسیکیوشن اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ گواہوں کے بیانات میں واضح تضاد پایا گیا اور ان کے بیانات نے پراسیکیوشن کے کیس کو کمزور کر دیا۔ جج نے مزید کہا کہ یہ قانون کا ایک متفقہ اصول ہے کہ جب بھی کسی کیس میں شک ہو تو اس کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔
 
عدالت نے تمام شواہد کا بغور جائزہ لینے کے بعد ملزم محمد خلیل کو بری کر دیا۔ جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن کی جانب سے جو شواہد پیش کیے گئے، وہ ناکافی تھے اور ملزم کے خلاف الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں تھے۔ ملزم کو باعزت بری کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ کیس میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے۔
 
فیصلے کے اثرات:
 
یہ فیصلہ ایک اہم قانونی نظیر کے طور پر سامنے آیا ہے جہاں عدالت نے اصولی طور پر شک کا فائدہ ملزم کو دیا اور پراسیکیوشن کے ناکافی شواہد کی بنا پر ملزم کو باعزت بری کر دیا۔
 
 اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتوں میں الزامات کی نوعیت اور شواہد کی اہمیت کتنی ضروری ہوتی ہے، اور محض الزامات کی بنیاد پر کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
 
ملزم محمد خلیل کے وکیل، ایڈووکیٹ وشال شاکر نے عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کی فتح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے مؤکل پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد تھے اور عدالت نے تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا ہے۔