چیف جسٹس اور پی ٹی آئی وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
The Chief Justice and the PTI lawyer exchanged bitter sentences
اسلام آباد:(سنو نیوز)آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیا ن تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔
 
تفصیل کے مطابق سماعت کے موقع پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ آئینی معاملہ ہےعمران خان سے کیس پر مشاورت کی اجازت دی جائے ۔ وہ سابق وزیرِ اعظم اوردرخواست گزار ہیں۔
 
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دلائل شروع کریں۔  علی ظفر نے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ آپ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست منظور نہیں کریں گے۔
 
پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں ،اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں ۔
 
اس پرمصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ م
 
صطفین کاظمی ایڈووکیٹ نے بنچ میں شامل دو ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت غیر آئینی ہے۔
 
چیف جسٹس کی ہدایت پر سیکیورٹی اہلکاروں نے وکیل کو کمرہ عدالت عدالت سے باہر نکال دیا۔
 
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟
 
 آپ ہمیں بے عزت کریں،یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے، ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے۔
 
 بعد ازاں عدالت نے وکیل علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی استدعا منظور کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کا انتظام کیا جائے۔
 
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ علی ظفر کو ملاقات میں مسئلہ ہو تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل معاونت کریں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات 3 اکتوبر 2024ء تک ملتوی کردی ۔