
22 سالہ ملزم نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ وہ غصے اور انتقام کے جذبات میں تھا کیونکہ ثناء نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا تھا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، عمر حیات نے منگل کو جسٹس مجسٹریٹ سعد نذیر کے سامنے سیکشن 164 کے تحت اپنا بیان دیا۔ اس نے کہا کہ میں ثناء سے ملنا چاہتا تھا، لیکن اس کے مسلسل انکار نے مجھے طیش دلا دیا تھا۔
عمر نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ پہلے ثناء کے گھر گیا تھا اور اس کے لیے سالگرہ کا تحفہ بھی لیا تھا۔ سارا دن انتظار کر نے کے باوجود وہ باہر نہیں آئی اور مجھے جانے پر مجبور کر دیا۔ یہاں تک کہ اس نے میرا دیا ہوا تحفہ بھی قبول نہیں کیا۔
یہ قتل اسلام آباد کے سیکٹر جی-13 میں ثناء کے گھر کے اندر واقع ہوا۔ ثناء کی والدہ فرزانہ یوسف کی طرف سے درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ حملہ آور تقریباً 3 بج کر 15 منٹ پہ گھر میں داخل ہوا۔ وہ براہ راست اُس کمرے میں گیا جہاں ثناء موجود تھی اور جان لینے کی نیت سے فائرنگ کی۔
یہ بھی پڑھیں:ثناء یوسف نے کس ڈرامے میں اداکاری کے جوہر دکھائے؟
فرزانہ اور گھر میں موجود مہمان لطیفہ شاہ اس واقعے کی گواہ تھیں۔ وہ فوراً پڑوسیوں کی مدد سے ثناء کو ہسپتال لے گئیں، لیکن ثناء زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔ بعد ازاں ثناء کی ڈیڈ باڈی پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں پوسٹمارٹم کے لیے منتقل کی گئی۔
پولیس نے ملزم کو فیصل آباد میں رات گئے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا۔ وہ قتل کے بعد فرار تھا۔ پولیس نے عمر سے اسلحہ بھی برآمد کر لیا ہے۔
ابتدائی رپورٹس اور گواہوں کے بیانات کے مطابق عمر اور ثناء ایک دوسرے کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ ثناء کی خالہ نے بھی تحقیقاتی ٹیم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فائرنگ سے چند لمحے پہلے دونوں کی بات سنی تھی۔ ثناء نے کہا تھا، اب جاؤ، یہاں کیمروں کی نگرانی ہے،میں تمہیں پانی دیتی ہوں۔
پولیس حکام نے تصدیق کی کہ یہ قتل ذاتی نوعیت کا تھا۔ ثناء کے باربار انکار اور عمر کے تحفے کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے اس نے یہ قدم اٹھایا۔ اس قتل نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے جہاں ثناء کے فالوورز انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔