“ہیرا منڈی”:ویب سیریزاوراصل میں کیافرق؟
Image
لاہور: (سنو ڈیجیٹل) ٹاک آف دی ٹاؤن سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز جو کہ لاہور کی ہیرا منڈی کی طوائفوں کے گرد گھوم رہی ہے، ویب سیریز کا ٹریلر ریلیز کردیا گیا۔
 
ویب سیریز ہیرا منڈی میں وہ وقت بتایا گیا ہے جب انگریزوں نے برصغیر پر حکومت قائم کی اور اس سیریز میں بتایا گیا ہے کہ کیسے لاہور ہیرا منڈی کی طوائفوں نے انگریزوں کیخلاف جنگ میں کردار ادا کیا، اس سیریز میں یہ لاہور کی 2 بڑی طوائفوں کی جنگ بھی بتائی گئی ہے کہ دونوں میں سے کونسی طوائف لاہور کی سب سے بڑی طوائف ہوگی۔
 
ویب سیریز میں منیشا کوئرالہ اور سوناکشی سینہا مرکزی کردار ادا کررہی ہیں، ٹریلر میں ملکہ جان یانی منیشا اور فریداں یانی کہ سوناکشی سینہا کے درمیان بھی لڑائی جاری ہے کون لاہور شہر کی سب سے بڑی طوائف ہوگی؟
 
 

 
 
 
لیکن جب برصغیر اور لاہور میں انگریزوں نے قبضہ جمایا تو دونوں طوائفیں آپسی لڑائی چھوڑ کرایک ساتھ ہوگئیں اور انگریزوں کیخلاف بھرپور جدوجہد آزادی کی اور مل کر مختلف تحریکیں چلائیں۔
 
ویب سیریز ہیرامنڈی سے متعلق پاکستانی اور ہندوستانیوں کی اپنی اپنی مختلف رائے ہے، اداکارہ منشا پاشا نے کہا کہ پاکستان کی ہسٹری کے اوپر بالی ووڈ والے فلمیں یا ویب سیریز بنا رہے ہیں۔
 
منشا پاشا کا کہنا تھا کہ بھارتی “ہیرا منڈی” پر فلمیں اور سیریز بنارہے ہیں جبکہ ہم لوگ اپنے مواد پر خود ہی پابندی لگا رہے ہیں، اب یہی ہوگا کہ ہم لوگ اپنی کہانیوں دوسروں سے سنا کریں گے۔
 
بھارٹی شائقین تو بے صبری سے سیریز کا انتظار کررہے ہیں لیکن پاکستانی اس سیریز سے زیادہ خوش نہیں، مشہور ڈرامہ رائٹر فائزہ افتخار نے سنو ڈیجیٹل کو بتایا کہ اگر تو یہ سیریز لاہور کی ہیرا منڈی پر بن رہی ہے تو اس میں دیکھائے جانے والا کلچر یا ڈریسنگ بھی پاکستان کے حساب سے ہونی چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ ویب سیریز میں جو زمانہ دیکھایا جارہا ہے یہ زمانہ اس وقت پنجاب میں تھا ہی نہیں۔
 
پاکستانی صحافی نے ویب سیریز ہیرا منڈی پر کہا کہ سیریز کے پوسٹر کو دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے کسی پاکستانی ڈیزائنر کا برائیڈل شوٹ ہو، عنیا نے سنو ڈیجیٹل کو بتایا کہ لاہور ایک تاریخی شہر ہی نہیں، ایک احساس کا نام ہے۔ آپ پورے ہندوستان میں بیٹھے ہوئے اس احساس کی تصویر کشی نہیں کر سکتے۔
 
ویب سیریز ہیرا منڈی 1940 کی دہائی کی ہے جو انگریز راج کے وقت پر طوائفوں اور انگریزوں کے درمیان ہونے والی جنگ پر بنائی گئی ہے، لیکن اصل میں ہیرا منڈی کیا ہے؟ جانیے سنو ڈیجیٹل کے ذریعے۔
 
سب سے پہلا سوال جو لوگوں کے دماغ میں آتا ہے وہ یہ کہ ہیرا منڈی کیا ہے ہے؟ یا اسکا نام ہیرا منڈی کیوں پڑا؟
 
تاریخ دان فاخر سید سیف الدین نے سنو ڈیجیٹل کے شائقین کو بتایا کہ ہیرا منڈی کا نام ہیرا منڈی کیسے پڑا تھا، فاخر سید کے مطابق یہ علاقہ پہلے غلہ منڈی ہیرا سنگھ کے نام سے جانا جاتا تھا، ہیرا سنگھ راجا دیہان سنگھ کا بیٹا تھا، راجا دیہان سنگھ ماہاراجا رنجیت سنگھ کے دربار کا ایک وزیر تھا، یہاں پر سرکاری گودام ہوتے تھے جن کی دیکھ بھال ہیرا سنگھ کرتا تھا اور لوگوں سے کرائے لیتا تھا۔
 
تاریخ دان کامران لاشاری نے بتایا کہ یہ علاقہ پہلے مغلوں کے کوارٹرز کے طور پر استعمال ہوتا تھا، مغلوں کی آبادیاں یہاں آباد تھیں، مغلوں کے محلوں میں کام کرنے والے لوگوں اور خواتین کی رہائش گاہیں یہاں پر تھیں ایک رائل تعلق ہوتا تھا اس علاقے کا مغلوں کے محلوں کے ساتھ۔
 
تاریخ دان فاخر سید سیف الدین کے مطابق اندرون لاہور میں پاپڑ منڈی کے پاس چوک مطیع جس کا ایک حصہ چوک چکلہ کہلایا ہے، جہاں پر طوائفوں کی حویلیاں تھیں، آج بھی وہ چوک مطیع بائی کے نام سے جانا جاتا ہے، چوک مطیع میں جتنے بھی مکانات تھے وہ ناچنے والی خواتین کے ہوتے تھے۔
 
تاریخ دان زیشان حسین نے سنو ڈیجیٹل کے شائقین کیلئے طوائف کی بہت خوبصورت الفاظوں میں تشریح کی، انکا کہنا تھا کہ کسی نے طوائف کہا، کسی نے وحشیا کہا، اصل میں تو آپ کہہ لیں کہ اسکی مثال یہ ہے کہ پیسے لے کر مردوں کو لبھانا ہوتا ہے۔
 
تارخ دان فاخر سید سیف الدین نے بتایا کہ لاہور کی پرانی کارپوریشن میں قرارداد منظور ہوئی تھی کہ طوائفوں کو اندرون لاہور سے نکال کر شہر بدر کیا جائے۔ اور جب ان طوائفوں کو شہربدر کیا گیا تو انہیں آج کل کی ہیرامنڈی کے پاس پاس جائیدادیں ملی تھیں، اور جب طوائفیں اس علاقے میں آباد ہوئی تو یہ علاقہ غلہ منڈی کی بجائے ہیرامنڈی کے نام سے جانا جانے لگا۔
 
تاریخ دان زیشان حسین نے شنو ڈیجیٹل کے شائقین کو بتایا کہ 5ویں صدی سے لے کر اب تک کی تاریخ تک اس میں طوائف کو اور اسکے پیشے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی، لوگ اپنے بچوں کو سیکھنے کیلئے ہیرا منڈی بھیجتے تھے، بچے وہاں پر تمیز اور ادب و اداب سے متعلق معاملات سیکھتے تھے۔
 
زیشان حسین نے مزید بتایا کہ موسیقی، اداب، آرٹ، فن کوئی ایسی صنف نہیں تھی جو طوائفوں کے پاس جاکر امر نہ ہوئی ہو، مزید بتایا کہ مغل بادشاہ جلاالدین اکبر نے طوائفوں کو ایک ادارے جیسے اہمیت دے دی تھی۔
 
ماہرین اور تاریخ دانوں کے مطابق ہیرامنڈی کی طوائفوں نے انگریزوں کے تسلط کیخلاف بھی جدوجہد آزادی میں بھرپور ساتھ دیا اور انگریزوں کیخلاف طرح طرح کی تاریخوں کا حصہ رہیں۔
 
جب انگریزوں کا تسلط قائم ہوگیا تو اس کے بعد انہوں نے چن چن ان لوگوں یا طوائفوں کو نشانہ بنایا جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، انگریزوں نے اصل میں ہیرامنڈی کے اسٹیٹس کو تبدیل کردیا تھا اور جو انکا اصل کام تھا، ناچ گانا، موسیقی، ادب وغیرہ سے متعلق سب ختم ہوگیا۔