
تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر رسد محدود رہی تو یہ قیمت جلد 200 روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ہے۔ مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے یہ اضافہ ایک اور دھچکا ہے۔
حکومت نے چینی کی قلت کا الزام ذخیرہ اندوزوں اور درمیانی کاروباری طبقے پر لگایا ہے۔ تاہم، صورتحال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان، ہول سیلرز، پالیسی ساز اور بین الاقوامی تجارتی فیصلے مل کر ایک طاقتور کارٹیل بناتے ہیں جو قیمتوں کو قابو میں رکھتے ہیں۔
عام طور پر پاکستان میں چینی کی قیمتیں اس وقت بڑھتی ہیں جب حکومت برآمدات کی اجازت دیتی ہے۔ اس سال بھی یہی ہوا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) نے اضافی اسٹاک کا حوالہ دیتے ہوئے چینی کی برآمد کی اجازت مانگی جو منظور ہوتے ہی مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلسل اضافے کے بعد سونے کی قیمتوں میں کمی
صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے PSMA نے ایک دو سطحی قیمت کا ماڈل تجویز کیا ہے کہ صنعتی و تجارتی استعمال کرنے والوں کو مارکیٹ ریٹ پر چینی دی جائے جبکہ گھریلو صارفین (جو کل کھپت کا 20 فیصد بنتے ہیں) کو سبسڈی پر فراہم کی جائے۔ لیکن یہ تجویز اب تک محض کاغذوں تک محدود ہے۔
واضح رہے کہ اس حالیہ چینی بحران نے ایک بنیادی پالیسی تضاد کو اجاگر کر دیا ہے۔ اضافی پیداوار کے باوجود برآمدات کی اجازت دی جاتی ہے پھر قیمتیں بڑھتی ہیں اور آخر کار چینی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس سے فائدہ صرف ملز مالکان کو ہوتا ہے جبکہ بوجھ عام عوام پر پڑتا ہے۔