
رپورٹ میں قواعد کی خلاف ورزیوں اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کی نشاندہی کی گئی ہے، 1100 ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں، نقصانات اور دیگر مسائل کی تفصیل رپورٹ میں شائع کی گئی ہے، رپورٹ میں مالیاتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کا انکشاف کیا گیا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں غیر مجاز ادائیگیوں اور ادارہ جاتی کنٹرولز کی تفصیل شامل ہے، رپورٹ میں سنگین ترین معاملہ 35 لاکھ 90 ہزار ٹن گندم کی درآمد قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مقامی سطح پر وافر مقدار میں گندم موجود ہونے کے باوجود 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، کاشتکاروں کو غیر معمولی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ متعدد وزارتوں نے بجٹ کی منظوری کے بغیر اخراجات کیے، مالیاتی قواعد کی خلاف ورزی کی گئی، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ملازمین کو اضافی الاؤنسز کی مد میں غیر قانونی ادائیگیاں کی گئیں جس سے قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک پر مجموعی قرضوں کا بوجھ 76 ہزار ارب روپے سے متجاوز
رپورٹ کے مطابق سول آرمڈ فورسز میں بھی غیر مجاز ادائیگیاں اور خریداری میں بے قاعدگیاں کی گئیں، نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی میں ملازمین کو غیر قانونی تنخواہیں اور مراعات دی گئیں، پاکستان کرکٹ بورڈ میں غیر قانونی ادائیگیاں ہوئیں، غلط استعمال شدہ فنڈز کی ریکوری کی سفارش کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایویکیو ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ، جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹیز میں غیر قانونی قبضے ہوئے، کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اراضی پر بھی ایسے واقعات سامنے آئے، متعدد ادائیگیوں پر واجب الادا ٹیکس کی کٹوتی نہ کی گئی، محصولات میں کمی اور ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہوئی۔
آڈیٹر جنرل کے مطابق 1.69 ارب روپے کی خورد برد اور فرضی ادائیگیوں کے پانچ کیسز سامنے آئے، رپورٹ میں 689.48 ارب روپے کے 107 ریکوری کیسز کی نشاندہی کی گئی، کمزور داخلی کنٹرول کے 39 کیسز رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کی کل مالیت 160.39 ارب روپے ہے، درجنوں دیگر آڈٹ پیراز میں اندرونی کنٹرول کی ناکامی سامنے آئی، ان اقدامات پر فوری اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے۔