پولیس قربانی میں آگے، جزا، اعزاز، انعام میں پیچھے
Image
لاہور: گزشتہ دنوں کراچی پولیس کے ہیڈ آفس اور پشاور پولیس لائن کی مسجد میں دہشتگردی کے واقعات میں 100 سے زائد اہلکار اور آفسر شہید ہوئے جو قوم کا فخر ہے، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فوج کے احسن کردار کی بات تو سب کرتے ہیں مگر پولیس کی قربانیاں اور شہادتیں نظروں سے اوجھل رہ جاتی ہیں، نہ کوئی زخموں پر مرہم رکھتا ہے نہ دلاسہ دیتا ہے۔ پولیس ہی کیوں ہمارے ملک میں بری سمجھی جاتی ہے جبکہ ایک عام سرکاری ملازم کی نسبت 12 سے 16 گھنٹے اپنی ڈیوٹی پر مامورپولیس اہلکار کی بھی زندگی ہے اسکی بھی فیملی ہے اسے بھی جلدی گھر جانا ہے ، اسے بھی اپنی نوکری کے علاوہ بہت سے کام ہیں، جان ہاتھ میں لیے ناکوں اور چیک پوسٹوں پر دہشتگردوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر بھی پولیس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔ https://www.youtube.com/watch?v=KYWEw3vP6Ss قربانی دینے کیلئے پولیس اہلکار سب سے آگے جبکہ انعام ، جزا اور حوصلہ افزائی کے لیے سب سے پیچھے بلکہ کبھی تو پوچھا بھی نہیں جاتا، کہا جاتا ہے کہ پولیس رشوت لیتی ہے مگر کیا کوئی جانتا ہے کہ پولیس اہلکار کی نسبت کسی دوسرے سرکاری ادارے میں بھی ملازم ہوتے ہیں وہ بھی بہت سے کام کروانے کے پیسے لیتے ہیں مگر انکو تو اس طرح بدنام یہ زلیل نہیں کیا جاتا، اگر پولیس والے 100 یہ 200 لیتے ہیں تو کسی دوسرے ادارے میں بیٹھا ملازم اس سے کہیں زیادہ رشوت لیتا ہے مگر اسے اس ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑھتا جتنا کہ ایک پولیس والے کو سننا پڑھتا ہے۔ پاکستان پولیس کارکردگی کے لحاظ سے دنیا میں 130 ویں نمبر پر ہے، 2022 کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق پولیس کو ملک کا سب سے بدعنوان محکمہ قرار دیا گیا ہے۔ ملک میں 2022 میں پنجاب کے اندر 20 اہلکار اور آفسر شہید ہوئے ، پنجاب میں 450 افراد کے لیے ایک پولیس اہلکار تعینات ہوتا ہے، رواں سال پنجاب پولیس کے لیے 149ارب کا بجٹ تھا جس میں مراعات، الائونسس ، تنخواہیں شامل تھیں، اسی طرح پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی پولیس پر بےشمار پیسے خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ اسلام آباد واحد ریجن ہے جہاں پولیس پر سب سے زیادہ خرچہ کیا جاتا ہے، پاکستان کی 25 کروڑ آبادی کے لیے 5 لاکھ پولیس فورس ہے ، پاکستان محفوظ ملکوں میں48 ویں نمبر پر آتا ہے۔ اسی سلسلے میں آئی سندھ پولیس غلام نبی میمن نے بتایا کہ لوگوں کے جان اور مال کی حفاظت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے، کرمنل جسٹس سسٹم میں بہت سارے معاملات ہیں جنہیں ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے، ہم اپنی پرفارمنس مزید بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انورکا اس بارے میں کہنا تھا کہ اس وقت پولیس کا بجٹ بہت بہتر ہو چکا ہے، پولیس فورس نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں، لاء اینڈ آرڈر صوبائی معاملہ ہے،انتخابات کے ذریعے آنے والے عوامی نمائندوں کو پولیس کے نظام سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ڈی آئی جی سیکیورٹی اسلام آباد پولیس محمد حسن رضا خان کا کہنا تھا کہ چونکہ اسلام آباد دارلحکومت ہے اس لیے جتنے بھی ایشوز ہوتے ہیں انکو کورکرنے میں اسلام آباد پولیس کا اہم کردار ہے، پھر چاہے دہشتگردی ہو ، لااینڈ آڈر کی صورتحال ہو پولیس ہی سب سے پہلے آگے آتی ہے، اسلام آباد پولیس پورے ملک سے آئے لوگوں کا مجموعہ ہے، بہت سی مشکلات اور فیصلے لینے کے باوجود کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ اموات نہ ہوں اور ہر طرح کے واقعے کو اچھی حکمت عملی کے تحت سنبھالا جائے۔ بات ابھی ختم نہیں ہوئی ابھی تو پولیس میں شہدا انکے خاندان اور پولیس ہو یا کوئی بھی دوسرا سیکیورٹی ادارہ ہو سے جڑے اہلکاروں ، آفسروں کا ذکر باقی ہے جو ملک کے لیے اپنی جان دینے سے گریز نہیں کرتے ہیں ، لہذا حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ان سب سیکیورٹی اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کرے۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage