آرمی چیف کی باڈی لینگویج

1/25/2024 8:49
تحریر: حماد حسن
سٹیج پر صرف دو ہی کرسیاں تھیں یعنی ایک وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور دوسری آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی۔ تقریر بھی دونوں نے کی اور سوالات کے جوابات بھی دونوں دیتے رہے، فوج کے سربراہ کی تقریر لگ بھگ ایک گھنٹہ پر محیط تھی جبکہ وزیراعظم انوارالحق کاکڑ قدرے مختصر بولے۔
قرآن پاک کی آیتیں اقبال کے شعر تہذیب و تمدن کی مثالیں مشہور رائٹرز کے قول اور اخلاق و کردار کا درس بھی دونوں کی تقریر کا مشترکہ موضوع تھا لیکن فوج کے سربراہ کی باتوں سے فوری طور پر واضح ہو چلا تھا کہ وہ پوری تیاری اور واضح ذہن کے ساتھ اس محفل میں آئے ہیں۔
سو ذرا فاصلے پر بیٹھی ایک لڑکی سے میں نے کاغذ مانگا اور قلم ساتھ بیٹھے ایک ساتھی نے فراہم کر دیا اور میں سامنے بیٹھے ایک مشہور اینکر کی طرح اونگھنے کی بجائے نوٹس لینے کی طرف متوجہ ہوگیا کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ مستقبل کا ریاستی بیانیہ یہیں سے پھوٹے گا۔
فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر تقریر کے لئے آئے تو چاروں صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان سے آئے سینکڑوں نوجوانوں نے دیر تک تالیاں بجا کر استقبال کیا۔ میرے ساتھ بیٹھی خاتون اینکر نے سوالیہ نظروں کے ساتھ میری طرف دیکھا تو میں نے الٹا انہی سے سوال کیا کہ کیا "فضا " تبدیلی کی جانب گامزن ہے؟
تقریر کے دوران قرآن پاک کے حوالے تسلسل اور کثرت کےساتھ دیئے جاتے لیکن دوسری طرف جدید دنیا کے حیرت انگیز دانشور یوول نوح حریری کے اقوال سے اقبال کی شاعری تک کو بھی اپنی بات کے ساتھ دلیل کے طور پر جوڑتے اور ہجوم سے خراج لیتے۔ تقریر کے دوران سوشل میڈیا کو شیطانی میڈیا کہہ کر پکارا تو سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا لیکن فوری طور پر قرآن پاک کی سورہ حجرات کی آیت واضح مفہوم کے ساتھ بیان کر دی کہ
"کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو پوری طرح تحقیق کر لیا کرو تا کہ تم گمراہی اور فساد سے بچے رہو" (القران )
اور پھر مجمعے کی طرف سوال پھینکا کہ کیا سوشل میڈیا میں خبر کے حوالے سے تحقیق کا کوئی بٹن یا کلک موجود ہے؟
سناٹا چھایا رہا تو اقبال کے شعر اور یوول نوح حریری کے قول کے راستے پر چلنے اور قرآن پاک سے روشنی لینے کی تاکید کرتے ہوئے سنی سنائی باتوں پر اپنا ذہن بنانے کی بجائے تحقیق پر زور دیا۔ نیز یہ بھی کہا کہ جنہوں نے سوشل میڈیا تخلیق کیا ہے کیا انہوں نے خود اسے وہ آزادی فراہم کر دی ہے جس "آزادی " نے ہماری تہذیب کا بیڑہ غرق کیا۔
گویا سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے اور بلیک میلنگ کو ایک اعتماد اور دلیل کے ساتھ مکمل طور پر رد کر دیا گیا !!!
تقریر کے دوسرے حصے میں اسلامی اقدار اور مشرقی تہذیب کی بجائے یورپی تہذیب سے مرعوبیت پر سخت تنقید کرتے ہوئے قرآن پاک سے جابجا حوالے دینے کے بعد بات اقبال کی "ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد " تک لے کر آئے تو نوجوان طالبعلموں کی پرجوش تالیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
ریاست مدینہ اور ریاست پاکستان کی مماثلت کا جائزہ پیش کیا تو عرق ریزی کے ساتھ مطالعے نے سامنے بیٹھے لوگوں کو چونکا کر رکھ دیا۔ اپنے دلائل کا اختتام اسی پر کیا کہ ریاست مدینہ نے پڑوس کی ریاست خیبر کے ساتھ معاہدہ کیا اور ریاست پاکستان نے قلات اور بہالپور ریاستوں کے ساتھ معاہدے کئے۔
بات آگے بڑھی اور پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی زیر بحث آئی تو کھل کر کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہم نے چالیس سال سے زائد ان کی مہمان نوازی کی لیکن ان کو اپنے رویئے پر سوچنا ہوگا مزید کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ اسلامی ملک ہے اور ہمیں ایران کا بہت احترام ہے لیکن ایران کو بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہم وہی کریں گے جو کیا !!!! اب کے بار تالیوں کی فریکوینسی اور طوالت پہلے سے بھی زیادہ تھی۔
آخری سیشن میں سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو قدرے سخت سوالات بھی ہوئے لیکن تہذیب اور شائستگی کا دامن کہیں نہیں چھوٹا۔
ایک نوجوان نے سوال پوچھا کہ ہمارے ملک میں آزادی اظہار رائے نہیں تو جواب ملا کہ اگر کوئی شخص اپنی ماں یا باپ کو گالیاں بکنا شروع کر دے تو کیا اس مکروہ عمل کو اظہار رائے کی آزادی کہہ کر اسے ایسا کرنے دیا جائے؟۔
تالیاں اور قہقہے دیر تک ایک ساتھ گونجتے رہے۔
تقریب اختتام کو پہنچی اور ہم لنچ کے لئے چل پڑے تو ایک صحافی دوست نے پوچھا کہ کیا تجزیہ کرنا چاہیے؟ میں نے جواب دیا کہ جمہوری عمل کا تسلسل اور بتدریج فوج کے سیاسی کردار میں کمی
روایتی الجھاؤ سے نکل کر معاشی استحکام کی طرف پیش قدمی اور سوشل میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف اعلان جنگ !!
میرے ساتھی نے مجھے پلیٹ تھمایا تو میں نے اسے اشارہ کیا اور وہ اپنا کان میرے منہ کے قریب لے آیا تو میں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ بھی کنفرم ہو گئی، کب؟
8 فروری 2024۔
اور اگلا وزیراعظم کون ہوگا ؟
کوئی بھی ! بشرطیکہ سوشل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈے نہ کرے۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage