سائفر کیس میں جیل ٹرائل کیخلاف عمران خان کی اپیل پر فیصلہ محفوظ
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو آج شام ساڑھے پانچ بجے سنایا جائے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کے خلاف چیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اپیلوں پر سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ، وفاق سے اٹارنی جنرل منصور اعوان اور ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم عدالت میں پیش ہوئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ رولز کے مطابق جیل ٹرائل کے لیے جج کی مرضی لازمی ہے، متعلقہ جج ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر آفس کے زریعے متعلقہ وزارت کو آگاہ کریں گے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کے وکیل سے سوال کیا کہ جیل ٹرائل کے لیے جج کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ متعلقہ جج کو اپنا مائنڈ کلئیر کر کے وجوہات بتانے ہونگے، ہائی کورٹ رولز کے مطابق جیل ٹرائل تمام پروسیس سے ہوتا ہوا ہوگا، 29 اگست کے دستاویزات میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا کہ کیوں جیل ٹرائل کیا جارہا ہے۔ سائفر کیس: عمران خان کیخلاف ٹرائل روکنے کے حکم میں کل تک توسیع وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ پراسیس کا آغاز ٹرائل جج نے کیا تو آگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا، جیل ٹرائل کیلئے منظوری وفاقی کابینہ نے دینی ہوتی ہے، اس کیس میں 12 نومبر سے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود نہیں۔ عدالت نے وکیل عمران خان سے استفسار کیا کہ آپ کے آرڈر سے کیا مراد ہے؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کے لیے پہلا فیصلہ ٹرائل کورٹ کے جج کا ہونا چاہیے، ٹرائل کورٹ کے جج کا خط فیصلہ یا حکمنامہ نہیں ہے، جج فیصلے کے زریعے اپنا مائنڈ استعمال کرتا ہے، جیل ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ جیل ٹرائل کے لیے پہلا قدم جج کا مائنڈ ہے کہ وہ جیل ٹرائل کا فیصلہ کرے، جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہئے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہئے۔ عدالت نے وکیل عمران خان سے استفسار کیا کہ کیا کوئی مثال ہے کہ سیکشن 352 کا اختیار کیسے استعمال ہوا ؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے سندھ ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ عدالت کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ جوڈیشل آرڈر میں فائنڈنگز بھی دینی چاہئیں، ابھی تک ایسا کوئی آرڈر موجود نہیں، دیگر وزراء اعظم کے خلاف اوپن ٹرائل اور میرے خلاف جیل ٹرائل کیوں ہورہا ہے؟۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا ابھی تک کوئی جوڈیشل آرڈر سیکشن 52 3) کے تحت پاس ہوا؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ رولز کے مطابق آج تک کوئی جوڈیشل آرڈر نہیں آیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ کابینہ کے فیصلے کا ماضی پر اطلاق نہیں ہوتا ، جیل ٹرائل کیلئے سب سے پہلے ٹرائل جج نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، حکم جاری کرنا ہوتا ہے، ٹرائل کورٹ کے جج کے خط کو فیصلہ / حکمنامہ نہیں کہہ سکتے، جج اپنا مائنڈ فیصلے سے ظاہر کرتا ہے، پراسس کے مطابق جج نے چیف کمشنر کو ہدایات دینی ہیں، چیف کمشنر منظوری کیلئے وفاقی حکومت سے رابطہ کرے گا، چیف کمشنر اس پراسس سے متعلق ہائیکورٹ کو بھی آگاہ کرے گا۔ عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مان بھی لیا جائے کہ بارہ نومبر سے کابینہ کی منظوری کیلئے طریقہ کار پر عمل کیا گیا تو پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہوگی، جوڈیشل آرڈر میں فائنڈنگز بھی دینی چاہئیں، ابھی تک ایسا کوئی آرڈر موجود نہیں، 16 اگست کو ریمانڈ کی کارروائی اوپن کورٹ میں ہوئی، سولہ اگست کی سماعت کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسکیوشن کی طرف سے آتی ہے، پراسکیوشن کی درخواست پر جج نے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوتا ہے، پراسکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہوگا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا۔ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے 8 نومبر کا جج ابو الحسنات ذوالقرنین کا خط پڑھا اور کہا کہ جیل ٹرائل کے جوڈیشل آرڈر ضروری ہے، جیل ٹرائل کا جوڈیشل آرڈر ہمارا موقف سننے کا حق دیتا ہے، 16 اگست کو جوڈیشل ریمانڈ کی کارروائی اوپن کورٹ میں ہوئی، جیل ٹرائل کے لیے اجازت لینا لازمی ہے، کیس پہلے اوپن کورٹ میں شروع ہوا اور پھر جیل ٹرائل میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ عدالت نے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہر سماعت کے لیے الگ الگ درخواست دی گئی ہو اور پھر الگ الگ نوٹیفکیشن جاری ہوا ہو۔ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہر بار ایک ایک سماعت کے لیے درخواست دی گئی اور اسی سماعت کے لیے اجازت بھی مل گئی، وفاقی کابینہ بھی معاملے کو دیکھے بغیر نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکتی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کے نوٹیفکیشن میں مستقبل کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے، 8 نومبر کا خط کو دیکھتے ہوئے پوزیشن مزید واضح ہو جاتی ہے، جج نے خط میں کہا کیس کا جیل ٹرائل جاری ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ کی منظوری کا خط اس وقت لکھا گیا جب انٹرا کورٹ اپیل زیر سماعت تھی۔ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ اپیل پر سماعت بھی چل رہی تھی، 12 نومبر کو کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی، ہمارے اس معاملے پر دلائل کے بعد جج کو احساس ہوا کہ یہ طریقہ ہونا چاہیے تھا، 12 نومبر کو کابینہ ڈویژن نے سمری تیار کی گئی، 13 نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ عدالت نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ 8 نومبر کو ٹرائل جج نے لیٹر کیوں لکھا ہے ؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 13 اکتوبر کے بعد پتہ نے کیا ضرورت پڑی کہ جج نے آٹھ نومبر کو لیٹر لکھا، جج کے لیٹر کو اسی روز ایڈیشنل کمشنر کے وزارت داخلہ کو بھیجا۔ عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ آپ نوٹ کر لیں عدالت کی معاونت کریں۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس کے بعد سمری تیار ہو کر کابینہ کے سامنے گئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے گزشتہ روز رجسٹرار ہائیکورٹ سے دو سوالات پوچھے تھے، رجسٹرار نے بتایا کہ جج کی تعیناتی کے پراسیس کا آغاز اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیا، یہ بھی بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے جیل سماعت سے پہلے ہائیکورٹ کو آگاہ بھی کیا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل میں فیملی ممبران کو بیٹھنے کی اجازت ملی ہے، خاندانی افراد کا ٹرائل میں بیٹھنے کے بعد نہیں سمجھتا کہ جیل ٹرائل چل رہا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو آج شام ساڑھے پانچ بجے سنایا جائے گا۔