سائفر کیس: عمران خان کیخلاف ٹرائل روکنے کے حکم میں کل تک توسیع
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف ٹرائل روکنے کے حکم میں کل تک توسیع کر دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس گل حسن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی ڈویژن بینچ کا حصہ ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج کی تعیناتی کا معاملہ بھی بہت اہم ہے عدالت کے سامنے کچھ حقائق رکھوں گا۔ عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے جو دستاویزات رکھیں ان کے مطابق جج کی تعیناتی کا پراسس ہائی کورٹ سے شروع ہوا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں سینکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں، حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دے دیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس عدالت کے سامنے ریکارڈ پیش کیا تھا، ہم نے دستاویزات دیکھے ہیں تعیناتی کیلئے کارروائی کا آغاز اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہوا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ ہمیں تو وہ دستاویزات بھی نہیں دکھائے گئے۔ جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمارے ذہن میں بھی یہی سوال تھا لیکن دستاویزات دیکھنے کے بعد صورتحال واضح ہوئی، آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اپیل ناقابلِ سماعت ہونے کے اعتراض کا جواب دیں، جیل ٹرائل سے متعلق اختیار عدلیہ کے پاس ہے ایگزیکٹو نے اس پر صرف عمل کرانا ہوتا ہے۔ شاہ محمود کا ضمانت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع عدالت نے وکیل سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اپیل پر اعتراضات سے متعلق دلائل دیں۔ عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی کے نام پر ایک بہانے سے چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی عدالت پیش نہیں کیا جا رہا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے جمع کردہ دستاویزات میں سی سی پی او کا ایک نوٹ بھی ہے، سی سی پی او نے وزارت داخلہ کو رپورٹ کیا جس کی بنیاد پر وزارت قانون نے یہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا، وزارت قانون نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیکورٹی خطرات ہیں جس کی وجہ سے جیل ٹرائل کیا جائے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ 16 اگست کو اوپن کورٹ میں جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا، اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کئے گئے بغیر جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا، شاہ محمود قریشی کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، چیرمین پی ٹی آئی گرفتاری سے پہلے ہر عدالت پیش ہوتے رہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتاری کے بعد کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، عمران خان کا نام چلانے پر الیکٹرانک میڈیا پر پابندی ہے۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ایک سٹریٹجی کے تحت چیرمین پی ٹی آئی کو سائیڈ لائن کرنا ہے، جو سٹریٹجی اپنائی گئی یہ نوٹیفکیشن اسی کا شاخسانہ ہے، سیکیورٹی کے نام پر ایک بہانے سے چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی عدالت پیش نہیں کیا جا رہا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر ایک سپیشل رپورٹ تھی جس میں سیکیورٹی خدشات کا ذکر کیا گیا، سی سی پی او نے رپورٹ وزارت داخلہ کو بھیجی، وزارتِ داخلہ نے رپورٹ وزارت قانون کو بھیج دی، وزارتِ قانون نے وہ نوٹیفکیشن ٹرائل کورٹ کے جج کو بھیجا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس لیٹر کا تب پتہ چلا ہے جب اٹارنی جنرل نے دستاویزات جمع کرائی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ اور وزارت داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر نہیں ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نوٹیفکیشن میں جنرل سیکورٹی خدشات کی بات کی گئی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ حکومت جیل ٹرائل کے لیے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کی درخواست آئے تو عدالت نوٹس کر کے دوسرے فریق کو سننے کے بعد فیصلہ کر سکتی ہے، سیکشن 9 کے تحت جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا سکتا، اِس سیکشن کے تحت عدالت کا وینیو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن جیل ٹرائل کا ذکر نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے اپیل قابلِ سماعت ہونے پر اپنے دلائل مکمل کر لیں، آپ کے بعد ہم اٹارنی جنرل کے جوابی دلائل سنیں گے، عدالت کیس قابلِ سماعت ہونے پر اپنا مائنڈ کلیئر کرنا چاہتی ہے، یقین دہانی کراتے ہیں کہ آپ نے دلائل دینے ہوئے تو دوبارہ موقع دیا جائے گا، آپ تھوڑا وقفہ کر لیں ہم اٹارنی جنرل کو قابلِ سماعت ہونے پر سن لیتے ہیں۔ اٹارنی روسٹرم پر آئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کا ٹرائل 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہونے سے شروع ہوا، اس سے پہلے کی تمام عدالتی کارروائی پری ٹرائل پروسیڈنگ تھی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ کیا سیکیورٹی تھریٹس سے متعلق رپورٹ ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے رکھی گئی ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں، وہ وہ رپورٹ ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے نہیں رکھی گئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کس مواد کی بنیاد پر پہلا خط لکھا ؟ اگر میرٹ پر دلائل سنتے ہیں تو آپ کو اِس نکتے پر عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، جج نے سیکورٹی خدشات کے حوالے سے جو خط لکھا ان کے پاس کیا معلومات تھیں ؟ کیا سپیشل رپورٹس ان کے ساتھ شیئر کی گئی تھیں؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بات عمومی طور پر پبلک ڈومین میں تھی اور عدالت کو بھی اس کا علم تھا، ریمانڈ کے لیے بھی جج کو جیل جانا پڑا تو انہیں اس بات کا احساس تھا۔ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ تھینک یو مسٹر اٹارنی جنرل۔ وکیل سلمان اکرم رجہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کہا کہ حکم امتناع نہیں اس لیے وہ کارروائی جاری رکھیں گے، ہر سماعت پر تین گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں، 15 نومبر تک ٹرائل کورٹ میں ہونے والی تمام عدالتی کارروائی غیر قانونی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں نہیں پتہ کہ یہ کیس کیا ہے اور نہ ہم جاننا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ یہ عدالت فرد جرم کے معاملے پر بھی نہیں جانا چاہتی، ہم صرف جیل میں ٹرائل اور جج کی تعیناتی کے معاملے پر قانونی نکات دیکھ رہے ہیں۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میری استدعا ہوگی کہ اگر جیل ٹرائل بھی ہو تو کم از کم جج کو تبدیل کیا جائے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالت نے نوٹ کیا ہے وزارت قانون نے 25 ستمبر کو جاری نوٹیفکیشن میں لفظ جیل نکال دیا۔ وقفہ سماعت کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل سے اہم مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں اسپیشل کورٹس کا ایڈمنسٹریٹو جج تھا تو مجھے شکایات موصول ہوئیں تھیں، جوڈیشل کمپلیکس اسپیشل کورٹس میں تعینات کردہ اسٹاف وزارت قانون کا ہے وہ اسٹاف نا ججز کی سنتا ہے نا ہم اس اسٹاف کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لے سکتے ہیں، وزارت قانون کے تعینات کردہ اس اسٹاف کو کم سے کم ان ججز کی تو سننی چاہیے، بار بار وزارت قانون کو لیٹرز لکھے گئے لیکن وزارت قانون نے کچھ نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے میں اس کو دیکھ لوں گا۔ عدالت نے کہا کہ تین احتساب عدالتیں گزشتہ حکومت کے دور سے خالی پڑی ہیں، ہم نے تین ججز کی تعیناتی کا کہا لیکن وہ بھی نہیں لگائے گئے، یہ جو (وزارت قانون) کہہ رہے ہیں ہمارے پاس کنٹرول ہے، یہ ایسے اپنا کنٹرول استعمال کرتے ہیں، اگر آپ ان معاملات کو دیکھیں تو وفاقی دارالحکومت کی عدالتوں کے لیے بڑی سروس ہوگی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے حکومت کے سامنے معاملہ رکھنے کی یقین دہانی کرا دی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ ہماری استدعا ہے کہ کابینہ کی منظوری اور نئے نوٹیفیکیشن سے پہلے کی سائفر کیس کی کارروائی کو کالعدم قرار دیا جائے، 12 نومبر سے پہلے کے نوٹیفکیشنز میں کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کابینہ نے کیا قانونی طور پر پراسس مکمل کیا ؟ جو ٹرائل ہو چکا اس پر کیا اثرات ہوں گے ؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو ٹرائل 12 نومبر تک ہوا وہ کالعدم ہوگا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالت کو ایک ایک کرکے بتائیں پراسس کیا تھا جس کو فالو کرنا ضروری تھا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پراسس مکمل کرنے سے پہلے کے ٹرائل کو صرف بے ضابطگی نہیں کہہ سکتے، چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل کو اِن کیمرہ ٹرائل بنا دیا گیا ہے، اِس ٹرائل میں فیملی ممبرز کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے ایک سوال اپنے پہلے تحریری آرڈر میں بھی رکھا تھا، وفاقی کابینہ کی منظوری سے پہلے ہونے والے ٹرائل کا سٹیٹس کیا ہوگا ؟ آپ اپنے دلائل میں واضح کر دیں کہ آپ اس ٹرائل سے متعلق کیا چاہتے ہیں؟ کیا آپ ڈکلیئریشن چاہ رہے ہیں؟۔ جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ پبلک کو عدالتی کارروائی سے باہر رکھنے کا اختیار متعلقہ جج کا ہے، اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں کہ جج کی طرف سے پبلک کو باہر رکھنے کا کوئی آرڈر موجود نہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق ایسا آرڈر نہ ہونے کے باعث اسے اوپن ٹرائل تصور کیا جائے گا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم اس ٹرائل کو اوپن کورٹ نہیں کہہ سکتے، جہاں عام عوام کو کیس سننے کی اجازت نہیں وہ اپن ٹرائل نہیں ہو سکتا، پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ میں پبلک کو ٹرائل سے باہر رکھنے کی درخواست دائر کی، جج نے آرڈر میں لکھا کہ ابھی تو پبلک کیس کی سماعت میں موجود ہی نہیں، جج نے لکھا کہ جب پبلک موجود ہوئی تو پھر اس معاملے کو دیکھیں گے۔ عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 8 نومبر تک ہونیوالے کارروائی میں خاندان کے افراد کو بھی سماعت سننے کی اجازت نہیں تھی، شاہ محمود قریشی کے خاندان کے افراد کی طرف سے سماعت کی اجازت کیلئے درخواست بھی دی گئی، شاہ محمود قریشی کے خاندان کی دوخواست پر ٹرائل جج کے حکمنامے سے ان مائنڈ ظاہر ہوتا ہے، اس معزز بنچ کی طرف سے دی گئی ابزرویشن کے بعد خاندان کے افراد کو سماعت کیلئے اجازت دی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کی سماعت کرنیوالے جج کی تعیناتی سے متعلق سوالات کے جواب کیلئے رجسٹرار ہائیکورٹ کو طلب کرلیا اور پوچھا کہ آپ یہ آگاہ کردیں کہ جج ابولاحسنات محمد ذوالقرنین کی تعیناتی کا پہلا ڈاکیومنٹ یہی ہے جو وزارت قانون کا ہے ؟ سائفر کیس میں کسی بھی سطح پر جیل ٹرائل سے متعلق ہائیکورٹ کو انفارم کیا گیا ؟ عدالت نے رجسٹرار ہائیکورٹ کو سوالوں کے جواب دینے کیلئے وقت دیدیا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہاں سوال غیر قانونی جیل ٹرائل کا ہے، ایک ایسا ٹرائل جس میں خاندان، میڈیا اور عوام کو سماعت کی اجازت نہیں، کیا اس سب کو ہم معمولی بے ضابطگی کہہ سکتے ہیں ؟۔ چیئرمین پی ٹی آئی وکیل نے جیل ٹرائل کو کالعدم قرار دئیے جانے کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ سلمان اکرم راجہ کی طرف سے بھارت اور امریکہ کی عدالتوں کے فیصلوں کے بھی حوالے پیش کئے گئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے کیخلاف سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کے حکم میں کل دن گیارہ بجے تک توسیع کر دی۔