پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ محفوظ
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت پانچ رکنی کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نتائج کالعدم دینے کے معاملے کی سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان، بیرسٹر علی ظفر اور نیاز اللہ نیازی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے حکم دیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں، الیکشن کمیشن نے ہمارے 2022 کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا، الیکشن کمیشن کے مطابق ہم نے پارٹی آئین میں ترمیم بعد میں کی تھی، الیکشن کمیشن نے ہمیں کہا 2019 کے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر الیکشن کمیشن کی جانب سے دیئے گئے آرڈر پر بحث نہیں ہو رہی۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی آئین 2019 کے مطابق دو طرح کے الیکشنز ہوتے ہیں پینل اور سنگل، انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کسی قانون میں طریقہ کار مقرر نہیں ہے۔ ممبر کمیشن نے پوچھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں شیڈول تو دیا جاسکتا ہے۔ جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ نہیں سر، انٹراپارٹی انتخابات میں پارٹی اور یونین خود فیصلہ لے سکتی ہے۔ ممبر کے پی نے سوال کیا کہ اس طرح کھولا نہیں چھوڑا گیا، آئین میں ہے قانون کے مطابق کرائیں۔ بیرسٹر علی طفر نے موقف اپنایا کہ آئین میں پارٹی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کیسے انتخابات کرانا چاہیں، ہمارے پارٹی آئین میں بھی نہیں ہے، صرف سیکریٹ بیلٹ متعلق واضح ہے، کب کرانے ہیں کدھر کرانے ہیں آئین میں پارٹی پر ہے، ہر کوئی پارٹی ممبر نہیں ہے، ووٹر، سپورٹر اور ممبر میں فرق ہے، ممبرز سے آپ کا پہلا سوال ہونا چاہیے کہ آپ کا ممبرشپ کارڈ کدھر ہے۔ ممبر کمیشن نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کوئی ممبر نہیں تو شکایت نہیں کرسکتا۔ جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ جی بالکل ممبر کے بغیر کوئی شکایت نہیں کرسکتا، آپ کے ایک فیصلے میں لکھا گیا ممبرشپ کے بغیر لوگ شکایت نہیں کرسکتے، پارٹی کسی کو نکال بھی سکتی ہے، اگر کسی کو پارٹی میں رہنے کا شوق ہے تو سول کورٹ میں جاسکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں https://sunonews.tv/18/12/2023/pakistan/60095/ وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ممبر کو پارٹی میں رہنے کے لیے فیس جمع کروانا ہوتی ہے، آپ نے 20 روز دیئے ہمارے قوانین کہتے ہیں چھ ہفتے چاہیے، اب بات یہ ہے کہ ہم نےآئین کے مطابق الیکشن کروائے، میڈیا میں تاریخ شائع کی گئی، ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہم چھپ کر الیکشن کر رہے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق میڈیا رپورٹس عدالت میں جمع کرا دیں۔ پی ٹی آئی وکیل نے مختلف میڈیا چینلز پر نشر کیے گئے خبروں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے شیڈیول مختلف دفاتر کے باہر چسپاں کر دیئے۔ ممبر کمیشن نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پورے پاکستان کے الیکشن پشاور میں کر دیئے ؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی بالکل ساری پارٹیاں ایک ہی جگہ پر الیکشن کراتی ہیں، ہم نے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی کیلئے خط بھی لکھا، آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری سے بھی بات ہوئی، کاغذات نامزدگی سے متعلق بھی خبریں رپورٹ ہوئیں۔ ممبر الیکشن کمیشن نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کاغذات نامزدگی کا کوئی نمونہ ہے، آپ کے پاس کاغذات نامزدگی سے متعلق نوٹس کی کوئی کاپی ہے، آپ ہماری تسلی کیلئے کوئی کاپی دکھائیں۔ جس پر چیئرمیں پی ٹی آئی گوہر علی خان نے کہا کہ جی بالکل ہے لیکن یہاں ہر نہیں لائے۔ بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ جب سکروٹنی مکمل ہوئی تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ بلا مقابلہ ہے، بلا مقابلہ کے باوجود ہم نے سب کو جمع ہونے کی اجازت دی، الیکٹوریٹ باڈی میں سے کسی نے بھی الیکشن سے متعلق شکایت نہیں کی، غیر ممبر کے علاؤہ کوئی بھی آپ کے پاس نہیں آیا، ہم واحد پارٹی ہیں جن کا سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے، اب تو جلسے بھی انٹرنیٹ پر ہورہے ہیں۔ ممبر کمیشن نے استفسار کیا کہ جن لوگوں نے درخواستیں دی ہیں کوئی تو ممبر رہا ہوگا۔ جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ جو لوگ آئے ہیں ان میں سے کوئی ممبر نہیں ان کے پاس کارڈ بھی نہیں، کوئی بھی نامزدگی فارم کی وصولی کیلئے نہیں آیا۔ سماعت کے دوران ممبر کمیشن سوال کیا کہ یہ الیکشن پشاور میں کہاں پر ہوئے۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ رانو گڑھی پشاور میں ایک جگہ پر انتخابات ہوئے۔ ممبر کمیشن نے کہا کہ یہ نام تو پہلی دفعہ سن رہا ہوں۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ چمکنی پشاور کا ایک علاقہ ہے، درخواستوں گزاروں نے کوئی ممبر شپ کارڈ، یا ممبرشپ فیس کارڈ لف نہیں کیے، آپ نے ماضی میں ایک فیصلہ دیا غیر قانونی ممبر کو چیلنج کرنے کا حق نہیں۔ ممبر کمیشن نے کہا کہ ان درخواست گزاروں کو نکالا گیا تھا۔ جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر کوئی ممبر نہیں تو وہ انتخابات کو چیلنج نہیں کرسکتا، کسی نے نہیں کہا کہ ہمیں ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہم مقابلہ کرنا چاہتے تھے کسی عہدے کا ذکر نہیں، بتائیں تو سہی کی ان کے پاس کونسا پینل تھا، اگر یہ لوگ پینل لے بھی آتے پھر بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، اس کی وجہ ہے کہ یہ ممبر ہی نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے کاغزات نامزدگی کیلئے درخواست ہی نہیں دی۔ ممبر کمیشن نے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں نے یہاں پر ویڈیو بھی چلائی تھی۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ اس کا تو فرانزک ہوگا اور اس کے بعد پتا چلے گا، ہر کوئی تو نہیں کہہ سکتا کہ خلاف ورزی کی گئی، بڑے اچھے کاغذات نامزدگی بنائے گئے ہیں چار پانچ کلرز ہیں اس کے۔ اس پر ممبر کمیشن نے کہا کہ ہمیں تو ایک بھی نہیں دکھایا گیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان اور الیکشن لڑنا ہمارا بنیادی حق ہے، ان درخواست گزاروں کا کوئی حق نہیں بنتا، اکبر ایس بابر نے باقی پارٹیوں کا بھی ذکر کیا صرف پی ٹی آئی کا نہیں، اب اس درخواست کا کیا کرنا ہے یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے، کچھ درخواست گزاروں نے کہا وینیو کا پتہ نہیں چلا، انتخاب بلا مقابلہ تھا اس لیے ضروری نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ ممبر ہی نہیں، ان درخواست گزاروں کی درخواستیں مسترد کی جائیں۔ اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے انٹرا پارٹی انتخابات دوبارہ کروانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کسی ممبر کا ذکر نہیں بلکہ فرد کا ذکر ہے، آپ نے آئین میں بتانا ہے کہ پروسیجر کیا ہونا چاہیے، اکبر ایس کی ممبرشپ سے متعلق فیصلے لگا دیے ہیں، اکبر ایس بابر پارٹی کے سابق عہدے دار رہے ہیں، انہوں نے اکبر ایس بابر کو کب شوکاز نوٹس دیا وہ کہاں ہے ؟ ہم صرف دوبارہ جلد از جلد انٹرا پارٹی انتخابات چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل سسنے کے بعد پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage