
لاہور:(سنونیوز)شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان نے جس طرح فن قوالی کو دنیا بھر میں متعارف کروایا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے،اللہ ہو،یاحیی یاقیوم کا ورد پوری دنیا میں پہنچانے والے نصرت فتح علی خان نے اپنے خاندان کی وراثت کو لازوال طریقے سے آگے بڑھایا اور اس فن میں ایسی مہارت حاصل کی کہ یکتا ہوگئے جس کے باعث انہیں شہنشاہ قوالی کا خطاب ملا،بارسو البمز اور لاتعداد گیت گانے والے نصرت فتح علی خان کی آج 26 ویں برسی منائی جارہی ہے۔
اُستاد نصرت فتح علی خان 13اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے آپ کے والد استاد فتح علی خان اور چچا استاد مبارک علی خان اپنے دور کے مشہور قوال تھے،نصرت فتح علی خان نے بچپن ہی سے موسیقی کو اپنا جنون بنا لیا تھا اور صرف دس برس کی عمر میں ہی وہ طبلہ بجانے پر کمال مہارت حاصل کر چکے تھے۔
سنہ 1960 کی دہائی کے شروع میں ہی اپنے والد استاد فتح علی خان کی وفات کے بعد انھوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے چچا استاد مبارک علی خان اور استاد سلامت علی خان سے لینا شروع کی اور ستر کی دہائی میں استاد مبارک علی خان کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی کی۔
اُستاد نصرت فتح علی خان نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔90 کی دہائی میں پاکستان اور ہندوستان میں ان کی موسیقی نے دھوم مچا دی اور انھوں نے کئی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔آفریں آفریں، اکھیاں اُڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یا خوشی ہے تُوجیسے شہرہ آفاق گیتوں نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔غزلوں اور قوالیوں کے ساتھ ساتھ نصرت فتح علی خان کی مقبول زمانہ حمد “کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے” کو بھی بہت زیادہ سنا اور پسند کیا گیا۔
نصرت فتح علی خان کی قوالیوں کے پچیس البم ریلیز ہوئے جن کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی۔ان کی فنی خدمات کے صلہ میں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نواز اگیا۔ وہ بیک وقت موسیقار اور گلوکار بھی تھے،1995ء میں انہیں یونیسکو میوزک ایوارڈ دیا گیا جبکہ 1997ء میں انہیں گرامی ایوارڈز کیلئے نامزد کیا گیا۔
نصرت فتح علی خان کو عمر کے آخری حصے میں بیماریوں نے آگھیرا تھا جس کی وجہ سے ڈاکٹرز نے انہیں گلوکاری چھوڑ کر آرام کرنے کا مشورہ دیا ہوا تھا تاہم وہ اس مشورے کو ماننے سے انکاری رہے اور اپنے فن کو پوری دنیا میں پہچاتے رہے،موٹاپے کا شکار ہونے کی وجہ سے انہیں سانس کے مسائل لاحق ہوگئے تھے جس کی وجہ سے انہیں پرفارمنس کے دوران مشکلات کا سامنا بھی رہتا مگر وہ دھن کے اس قدر پکے تھے کہ پرفارمنس پھر بھی جاری رکھتے تاکہ سننے والوں کے پیسے ضائع نہ ہوجائے۔
بتایا جاتا ہے کہ انہیں ہیپاٹائٹس سی لاحق تھا جس کی وجہ سے انکی صحت خراب ہوتی جارہی تھی،انہیں علاج کے لیے لندن کے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انکی حالت کو دیکھتے ہوئے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا،بظاہر تو یہ لگا کہ یہ آپریشن معمولی نوعیت کے ہے لہذا وہ صحت یاب ہوجائیں گے مگر کسی کو کیا معلوم تھا کہ داعی اجل نصرت فتح علی خان کو لینے آپہنچا ہے۔
سترہ اگست انیس سوستانوے کو نصرت فتح علی خان نے لندن کے کروم ویل ہسپتال میں آخری سانس لیا اور جہان فانی سے کوچ کرگئے۔انکی اس خبر نے میوزک انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا ساتھ ہی ساتھ پاکستان سمیت دنیا بھر میں گلوکاری سے لگائو رکھنے والوں کو افسردہ بھی کردیا۔پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارتی فلم انڈسٹری نے بھی انکی وفات پر گہرے دکھ کااظہار کیا اور اسے کبھی نہ پورا ہونے والا نقصان گردانا ،پاکستان کی فضا اس افسوسناک خبر کے باعث سوگوار رہی اور ہر آنکھ سے نمی جھلکتی رہی۔
نصرت فتح علی خان کا جسد خاکی لندن سے لاہور لایا گیا جسے موصول کرنے کے لیے سیاسی اور سماجی شخصیات موجود تھی،پہلے پہل یہ کہا گیا کہ نصرت فتح علی خان کی تدفین لاہور میں علی ہجویری کے مزار کے احاطے میں ہوگئی تاہم اس فیصلے کو مسترد کردیا گیا اور انہیں انکے آبائی شہر میں سپردخاک کرنے کا حتمی فیصلہ ہوا جسے علمی جامہ پہنانے کے لیے نوازشریف نے اپنا ہیلی کاپٹر دیا جس میں خان صاحب کا جسد خاکی فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم پہنچایا گیا جہاں انکی نماز جنازہ ادا کرنے کے انتظاما ت کیے گئے۔
انکے جنازے پر تا حد نگاہ سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے اور انہیں گنتی میں لانا کسی بھی صورت ممکن نہیں تھا،قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا پڑ رہا تھا،جنازے کی ادائیگی کے بعد انکے جسد خاکی کو جلوس کی صورت میں انکے آبائی قبرستان لایا گیا جہاں انکے والدین آرام فرما رہے ہیں،اس موقع پر ساتھ آنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ لوگ درختوں اور آس پاس موجود مزاروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور اپنے محبوب گلوکارکا آخری دیدار کرنے لگے،نیلام گھر کے روح رواں طارق عزیز بھی غم کی تصویر بنے دکھا ئی دیے جو اپنے ملک کے فخر کو آخری سلام کرنے پہنچے ہوئے تھے۔
نصرت فتح علی خا ن نے اپنی حیات میں ہی اپنی قبر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں انکے والدین کے پہلو میں دفنایا جائے،انہوں نے اپنی جگہ کو پکی کرنے کے لیے قبرستان کی انتظامیہ کو پیشگی ہدیہ بھی فراہم کردیا تھا تاکہ کسی اور کو جگہ نہ مل سکا اور وہ بعد ازمرگ اپنے والدین کے پہلو میں تاقیامت آرام کرسکیں۔
نصرت فتح علی خان کو سینکڑوں سوگوراروں کی موجودگی میں سپر دخاک کیا گیا اور ان کی قبر پر گل پاشی کی گئی،نصرت فتح علی خان وفات کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے ،انکی قبر پر فاتحہ پڑھنے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا جو سارا دن میں تقریبا سو سے دوسو لوگوں پر مشتمل ہوتا،ان کی قبر پر عام لوگوں کے ساتھ ساتھ خاص شخصیات نے بھی حاضری دی جس میں بھارتی گلوکار ہنس راج ہنس،اداکار سنی دیول اور ملکہ ترنم نور جہاں بھی شامل تھیں۔
نصرت فتح علی خان کو دنیا سے گزرے 26 سال گزر چکے ہیں تاہم ان کی گلوکاری نے انہیں آج بھی دنیائے گلوکاری میں زندہ رکھا ہوا ہے ،رہتی دنیا تک ان کی قوالیاں،غزلیں اور گیت موجودہ اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔
اللہ پاک ان کی لحد پر رحمتوں کا نزول فرمائے آمین۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage