فیض آباد دھرنا کیس، سچ سب کو پتہ ہے بولتا کوئی نہیں: سپریم کورٹ
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن جسے بلائے اور وہ نہ آئے تو اسے گرفتار بھی کروا سکتا ہے، سچ سب کو پتہ ہے بولتا کوئی نہیں، کوئی ہمت نہیں کرتا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ کا حصہ ہیں۔ عدالت کے نوٹس پر شیخ رشید احمد پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ نہیں ہو گا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی۔ جس پر وکیل شیخ رشید نے کہا کہ کچھ غلط فہمی پیدا ہوئی تھی اس لیے نظرثانی درخواست دائر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سچ سب کو پتہ ہے بولتا کوئی نہیں، کوئی ہمت نہیں کرتا۔ جس پر وکیل شیخ رشید نے کہا کہ آج کل تو سچ بولنا اور ہمت کرنا کچھ زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آج کل کی بات نہ کریں ہم اس وقت کی بات کر رہے ہیں، کیا سپریم کورٹ کو کوئی باہر سے کنٹرول کر رہا ہے۔ فیض آباد دھرنا کیس: نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج چیف جسٹس قاضی فائز عیسییٰ نے وکیل شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جارہا، کیونکہ نظرثانی زیر التوا ہے، آپ اب بھی یہ سچ نہیں بولیں گے کہ کس نے نظرثانی کا کہا تھا، آپ نے نظرثانی کی درخواست ہی دائر کیوں کی تھی، چار سال لٹکائے رکھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو ایم این اے رہ چکے اور وزیر رہ چکے وہ تو ذمہ دار ہیں نا، جلاؤ گیراؤ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں نا، کہیں نا کہ ہاں میں نے حمایت کی تھی، دوبارہ موقع ملے تو کیا پھر ملک کی خدمت کریں گے ؟۔ شیخ رشید کو روسٹرم پر آکر بولنے سے چیف جسٹس نے روک دیا۔ چیف جسٹس نے شیخ رشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے نہیں پوچھ رہے، آپ کے وکیل سے پوچھ رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شیخ رشید ایک سینئر پارلیمنٹرین ہیں، آپ کے حوالے سے عدالت نے کچھ نہیں کہا۔ سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی نظرثانی کی درخواست واپس لینے پر خارج کردی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد کے لیے تشکیل دیئے گئے کمیشن کا نوٹیفیکیشن عدالت میں پیش کر دیا۔ اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کے ٹی او آر پڑھ کر سنائے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزارت دفاع میں سے کسی کو کمیشن میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ جس پ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت اس کمیشن سے تعاون کرنے کی پابند ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن جیسے بولائے اور وہ نہ آئے تو کمیشن اسے گرفتار بھی کروا سکتا ہے، 4 سال سے ہمارے سامنے کچھ نہیں آیا، 60 دن کے اندر کمیشن کی رپورٹ آئے گی اسے ہم دیکھ لیں گے، ابھی کمیشن نے کام شروع نہیں کیا تو شک کیسے ظاہر کریں۔ ابصار عالم نے کہا کہ میں اس ملک کی تاریخ کی بنیاد پر شک ظاہر کر رہا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جس نے سچ نکلوانا ہوتا ہے وہ نکلوا لیتا ہے، سچ نکلوانا ہو تو تفتشی افسر بھی نکلوا لیتا ہے، سچ نہ نکالنا ہو تو آئی جی بھی نہیں نکلوا سکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کمیشن کو اختیار ہے وہ سابق وزیر اعظم، ڈی جی آئی ایس آئی سمیت کسی کو بھی بلا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کوئی استثنی تو نہیں دیا کہ کمیشن کسی کو نہیں بلا سکتا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن سب کو بلا سکتا ہے، کوئی استثنی نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت 22 جنوری تک ملتوی کر دی۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage