ایک رپورٹر وہ بھی تھی

11/14/2023 8:42
تحریر: حماد حسن
کیتھرین کیٹ ایڈی 1945 کو برطانیہ کے علاقے نارتھ امبر لینڈ میں پیدا ہوئی۔ساٹھ کے عشرے میں نیو کاسل یونیورسٹی سے سکینڈے نیوین سٹڈیز پر جرنلزم کی ڈگری حاصل کی اور عملی صحافت کے میدان میں وارد ہوئی اسے ایک پروفیشنل اور حد درجہ دلیر صحافی کی حیثیت سے شہرت ملتی گئی کچھ عرصہ بعد وہ بی بی سی سے وابستہ ہوگئی۔کیتھرین کیٹ ایڈی وارزون سمیت مشکل ترین ایونٹس کی کوریج کی ماھر سمجھی جاتی تھی۔بارود کی بارش یا سنسناتی ہوئی گولیوں سے وہ خیر دھشت زدہ تو کیا ہوتی لیکن وھاں سے خالص پیشہ وارانہ انداز میں خبر نکال کر لے آتی۔
سال 1980 کے عشرے میں ایرانی سفارت خانے پر لندن میں حملہ ہوا تو کیتھرین ایک چھوٹی سی گاڑی کے نیچے چھپ کر برستی ہوئی گولیوں کے بیچوں بیچ لائیو کوریج کرنے لگی۔ایک ساتھی نے دیکھا تو دور سے آواز دی کہ بھاگ جاؤ شدید فائرنگ ہورہی ہے کیتھرین نے مڑ کر ساتھی کی طرف دیکھا اور اپنا مائیک سنبھالتے ہوئے کہا “ یہی تو خبر کے حصول کا موقع ہے" یہ آپریشن سو گھنٹے تک مسلسل جاری رہا اور کیتھرین لمحہ بھر کو غافل نہیں رہی بلکہ مسلسل موجود رہ کر لائیو کوریج کرتی رھی۔(اس رپورٹنگ کو صحافتی حوالے سے بہت شہرت ملی اور اسے سال کی بہترین رپورٹنگ تسلیم کیا گیا)
سال 1986 میں امریکہ نے لیبیا پر بمباری کی تو ٹریپولی کی سڑکوں پر اپنے کیمرے اور مائیک سمیت بھاگتی اور بمباری کی لائیو کوریج کرتی اور امریکہ کا ظالمانہ چہرہ دُنیا کو دکھاتی رہی اس دوران کرنل قذافی کا ایک یادگار انٹرویو بھی کر ڈالا ،انھی دنوں ایک لیبیائی فوجی کمانڈر نے کسی بات پر مشتعل ہوکر کیتھرین کیٹ ایڈی پر فائرنگ کر دی جس سے ایک گولی اس کے گلے میں لگی لیکن خوش قسمتی سے زیادہ نقصان نہیں ہوا تاہم کیتھرین نے زندگی بھر اپنے اس ذاتی تکلیف کا ذکر تک نہیں کیا (جبکہ یہاں تو میرے پیٹ میں اب بھی گولی ہے اور ہم بال بال بچ گئے نے ھماری ناک میں دم کر رکھا ہے )۔
سال 1980 میں نارتھ آئر لینڈ کا مسئلہ کھڑا ہوا تو مسلسل وھاں موجود رہی اور متحارب گروھوں کا نکتہ نظر دُنیا کو سامنے لاتی رہی ۔ 1989 میں چین کے تیان من سکوائر میں احتجاجی نوجوان نکل آئے تو بلا خوف و خطر اسی چوک میں مسلسل موجود رہی ، حتٰی کہ اس دلدوز منظر کی کوریج بھی کی جب ٹینک احتجاج کرنے والوں کو کچلنے لگے ۔
سال 1994 میں روانڈا کے انتہائی خطرناک جینو سائیڈ کے بیچوں بیچ مسلسل موجود رہ کر بلا خوف دیانت داری کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھاتی رہیں ۔ اس جینو سائیڈ کے دوران دس لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے اور انسانی زندگی بے معنی اور بے وقعت ہو کر رہ گئی تھی لیکن کیتھرین کیٹ ایڈی ایک لمحہ کو بھی میدان چھوڑ کر نہیں بھاگی بلکہ دیانتداری اور دلیری کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھاتی رھی ۔ 2000 میں افریقی ملک سیرالیون میں مسلسل میدان جنگ میں موجود رہ کر رپورٹنگ کرتی اور مہارت کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتی رہی ۔
وہ 1989 سے اپنی ریٹائرمنٹ یعنی 2003 تک بی بی سی سے بحیثیت چیف نیوز کرسپانڈنٹ وابستہ رھی لیکن سٹوڈیو میں بیٹھ کر محض وقت گزاری کی بجائے وہ ہمیشہ خطرناک فیلڈ کا انتخاب کر کے کام کرتی رہیں ۔ اپنی بہترین کارکردگی کی بدولت اسے دُنیا کی تین بہترین صحافیوں میں شامل کیا گیا تھا۔
اب ذرا کیتھرین کیٹ ایڈی کی حد درجہ محنت طلب اور پروفیشنل صحافت پر نظر ڈالیں،اور پھر اپنی سٹوڈیونشین غل غپاڑہ صحافت کو بھی ایک نظر دیکھ لیں۔لیکن ٹھہریں! ذرا اس طرف بھی دھیان دیں کہ کیتھرین کیٹ ایڈی ایک طرف مسلسل خطرناک فیلڈ میں مصروف رہ کر انتہائی مشکل اور خطرناک کوریج کرتی رہی جبکہ دوسری طرف اپنے پیشے (صحافت ) کے حوالے سے درجن بھر کتابیں بھی لکھیں ۔جن میں سے بعض کتابوں مثلاً کائنڈنس آف سٹرینجرز ،نو باڈیز چائلڈ اور فائٹنگ آن ھوم فرنٹ کو عالمی شہرت ملی۔
جبکہ ہمارے ھاں دیکھیں تو علم محنت اور پروفیشنل ازم سے بھلا اس سیٹھ خوش اور پلاٹ زدہ صحافت کا تعلق کیا ؟کیونکہ یہاں تو گالم گلوچ ، بہتان طرازی اور خبر رونمائی کی بجائے خود نمائی اور پبلک ریلشننگ ہی معیار ٹھہرے۔جس نے اس عظیم پیشے کا رُخ اس کلچر کی جانب موڑ دیا جس کا ذکر بھی کسی شریف آدمی کو کرتے ہوئے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔
اب اگر آپ واقعی صحافت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسے سنجیدہ اور شفاف دیکھنے کے متمنی بھی ہیں تو ذرا سکرینوں بلکہ اخبارات کے ادارتی صفحات سے چمٹے ہوئے ان نابغوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں جس میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقیوں کا تجربہ ،طرز تحریر ،فیلڈ رپورٹنگ اور تصنیف و تالیف تو دور کی بات ھے تعلیم بھی واجبی ہے اور تربیت بھی مشکوک۔جب صورتحال یہی ہو تو پھر اسے آپ بھلا کوئی بھی نام دے دیں لیکن کم از کم صحافت کہہ کر اس عظیم پیشے اور شاندار مشن کا مذاق اڑانے سے تو گریز کریں جس کی بنیادوں میں محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خان ، ابوالکلام آزاد سے لیکر فیض احمد فیض جیسے لوگوں کا خون پسینہ شامل ھے۔
ضرور پڑھیں

5 جی 6 جی کا دور ختم، چین نے 10 جی انٹرنیٹ لانچ کردیا
April, 24 2025

مقبوضہ کشمیر: سیاحوں پر حملہ، بھارتی میڈیا کا حسب روایت پاکستان مخالف پراپیگنڈا
April, 22 2025

غزہ کے مظلوموں کی پکار: کیا برصغیر کا مسلمان جاگے گا؟
April, 22 2025

عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت کی درخواست دائر
April, 18 2025
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage