سانحہ 9 مئی کیس: عمران خان کی مشکلات میں اضافہ
Image

لاہور: (رپورٹ، مرزا رمضان بیگ) سانحہ 9 مئی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 14 مقدمات کی تفتیش مکمل کرلی ۔ چیئرمین پی ٹی آئی 10نامزد مقدمات میں گنہگار قرار پائے گئے جبکہ چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف مرکزی مقدمہ کا چالان دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی ) ذرائع کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سوشل میڈیا سے متعلق 400سے زائد شواہد ملے ہیں ۔ گرفتار ملزمان کے بیانات اور نشاندہی پر انہیں کو گنہگار قرار دیا گیا ہے ۔ جناح ہاؤس حملے میں براہ راست ملوث 80 ملزمان کے بیانات میں سازش کا عنصر واضع ہوا ہے۔

دوران تفتیش 9 مئی کے واقعات پر براہ راست سازش کے شواہد بھی ملے ہیں۔ جے آئی ٹی حکام کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کے اپنے بیانات حالات سے متضاد پائے گئے۔ دیگر 9 مقدمات میں بھی ٹھوس شواہد کی روشنی میں چیئرمین پی ٹی آئی گنہگار قرار پائے ہیں۔ 14 مقدمات کا چالان جلد عدالت میں جمع کروادیا جائے گا ۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل کرنے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ وکیل شیر افضل مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کو پڑھا۔

وکیل شیر افضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ وزارت قانون نے کس قانون کس اختیار کے تحت عدالت اٹک جیل منتقل کی، اسلام آباد سے ٹرائل کیسے پنجاب میں منتقل ہو سکتا ہے ؟ ٹرائل دوسرے صوبے منتقلی قانونی طور صرف سپریم کورٹ کر سکتی ہے، چیف کمشنر یا سیکرٹری داخلہ کا اختیار نہیں کہ وہ ٹرائل دوسرے صوبے منتقل کریں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے پیچھے بدنیتی ہے، سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے نوٹیفکیشن کا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنا تھا، ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا گیا، آفیشل سیکرٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل اسپیشل کورٹ میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : عمران خان کی سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

وکیل شیر افضل مروت نے موقف اپنایا کہ اسلام آباد سے کسی دوسرے صوبے میں ٹرائل منتقل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کا ہے، اسلام آباد الگ سے خود مختار علاقہ ہے، کسی صوبے کی حدود میں نہیں آتا، کسی بھی عدالت کی سماعت کا مقام تبدیل کرنے کا طریقہ کار قانون میں واضح ہے، سماعت کا مقام تبدیل کرنے کیلئے متعلقہ عدالت کے جج کی رضا مندی بھی ضروری ہوتی ہے۔

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں نہیں رکھا جاسکتا تھا، اگر ٹرائل تبدیلی کرنی تھی تو ان کو ٹرائل جج سے پوچھنا تھا لیکن نہیں پوچھا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں ضمانت ہو چکی، چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت جوڈیشل حراست میں ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے موقف اپنایا کہ جیل ٹرائل سے متعلق نوٹیفکیشن ایک دفعہ کے لئے تھا، نوٹیفکیشن جب ایک دفعہ کے لیے تھا تو ان کی پٹیشن غیر موثر ہو چکی، رولز آف بزنس میں وزارت قانون کے پاس نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار ہے، وزارت قانون نے صرف این او سی جاری کیا تھا، سائفر کیس میں عدالت کی مقام تبدیلی صرف ایک بار کیلئے تھی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 30 اگست کو سائفر کیس کی سماعت کیلئے عدالت اٹک جیل منتقل کی گئی تھی، یہ نوٹیفکیشن وزارت قانون نے کیا اور اسی کا ہی اختیار تھا، وزارت قانون نے این او سی جاری کیا کہ وینیو تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ جیل ٹرائل کوئی ایسی چیز نہیں جو نہ ہوتی ہو، جیل ٹرائل کا طریقہ کار کیا ہو گا اس حوالے سے بتائیں۔ پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ سائفر کیس کا ابھی ٹرائل نہیں ہو رہا، وزارت قانون نے قانون کے مطابق عدالت منتقلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage