فاٹا اضلاع کے خیبر میں انضمام کے بعد دوسرے انتخابات
Image

سنو الیکشن سیل:(رپورٹ ،حدیقہ صلاح الدین) خیبر پاکستان کی پشاور ڈویژن کا ایک ضلع ہے۔ 2018 ء تک یہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی ایجنسی تھی اور یہاں صرف قومی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخابات منعقد ہوتے تھے، تاہم صوبائی اسمبلی کی نشست موجود نہ تھی۔

2018 ء میں 25ویں آئینی ترمیم کے بعد فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہو ا اور ضلع بن گیا، جس کے بعد سال 2019 ء میں صوبائی نشستوں پر فاٹا میں الیکشن ہوئےاور اب سال 2024 ء میں عام انتخابات میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخابات ہونگے۔

ضلع خیبر 2018 ء میں قومی اسمبلی کے 2 حلقوں این اے 33 اور این اے 34 پر مشتمل تھا۔ فاٹا ضم ہونے کے بعد چونکہ قومی نشستیں کم ہو گئیں تو یہ ضلع سال 2024 ء میں ایک حلقہ این اے 27 بن گیا ۔سال 2019 ء کے فاٹا الیکشن صوبائی حلقے پی کے 105، پی کے 106 اورپی کے 107 پر مشتمل تھے جو کہ سال 2024 ء کی تر تیب کے مطابق پی کے 69، پی کے 70 اور پی کے 71 بن گئے ۔

الیکشن 2024ء کی صورتحال:

ضلع خیبر میں این اے 27 سے پی ٹی آئی سے نورالحق قادری جو کہ سابقہ این اے 33 سے ایم این اے بھی رہ چکے ہیں ، مسلم لیگ ن کے شاہ جی گل آفریدی جو کہ سابق ایم این کے بمقابل رہے اور جماعت اسلامی کے شاہ فیصل آفریدی سال 2024ء کے انتخابات میں مضبوط ترین امیدوار ہیں ۔

صوبائی نشستوں میں پی کے 69 سے مسلم لیگ ن کے شفیق شیر آفریدی جو کہ سابق پی کے 105 کے ایم پی اے رہ چکے ہیں اور شیر مت خان مضبوط ترین امیدوار ہیں۔

پی کے70 سے مسلم لیگ ن کے بلاول آفریدی جو کہ سابقہ پی کے 106 کے ایم پی اے رہ چکے ہیں اور آزاد حیثیت سے حمیداللہ جان مضبوط ترین امیدوار ہیں۔ پی کے 71 سے پی ٹی آئی کے اقبال آفریدی جو کہ سابقہ این اے 34 کے ایم این اے رہ چکے ہیں اور جمعیت علما ئےاسلام کے الحاج شمس الدین جنہیں پہلے کبھی ایم این اے اور ایم پی اے کا عہدہ نہیں ملا، سال 2024 ءمیں ایم پی اے کی سیٹ پر مضبوط ترین امیدوار ہیں ۔

پس منظر:

قومی اسمبلی کے ایک حلقہ این اے27 اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پی کے 69،70،71پر مشتمل ہے۔ یہاں کی کل آبادی 11 لاکھ 46 ہزار اور ووٹرز کی کل تعداد6 لاکھ 38 ہزار743 ہے ۔ ضلع خیبر میں حکومت کی بات کی جائے تو اکثریت آزاد امیدوار اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے درمیان کانٹےکا مقابلہ ہوتاہے ۔ماضی کے تناسب کےمطابق سال 2024 ء میں بھی کوئی ایسا نیا نام نہیںجو سابقہ امیدواروں کے مدمقابل آیا ہو۔

8 فروری 2024 ء کو خیبر کی عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ یہ وہ وقت ہے جب لوگ اپنی آواز سنانے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے لیڈروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ انتخابات کا اختتام تب ہوتا ہے جب تمام ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے، اور ایک فاتح کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہ انتظار اور جشن کا لمحہ ہے۔ انتخاب کے دوران بہت سے عوامل کام کرتے ہیں۔ جیسے مہم کی حکمت عملی، ووٹر ٹرن آؤٹ، اور وہ مسائل جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

فاٹا کا انضمام:

فاٹا کے علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لئے نوازشریف کے دور حکومت میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے تمام قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کیا اور وہاں لوگوں سے ملے جس کے بعد نواز شریف کی حکومت کے آخری اسمبلی اجلاس میں یہ بل پیش کیا گیا جس میں پچیسویں آئینی ترمیم کرکے فاٹا کی حیثیت تبدیل کر دی گئی جس کے تحت فاٹا میں صوبائی اسمبلیوں کو نمائندگی دے دی گئی۔

خیبر پختونخوا کا حصہ بننے والے فاٹا کے علاقوں میں مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، کرم ، شمالی اور جنوبی وزیرستان، خیبر اور اورکزئی ایجنسیوں کے علاوہ ایف آر پشاور، ایف آر بنوں، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی مروت، ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان اور ایف آر ٹانک کے علاقے شامل ہیں۔

ذریعہ معاش:

خیبر کے لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر کھیتی باڑی اور کاشت کاری پر مشتمل ہے۔ یہاں کی آبادی کا 50فیصد کھیتی با ڑی جبکہ 25 فیصد آبادی بیرون ملک رہائش پذیر ہے جبکہ بقیہ 25 فیصد آبادی ضروریات زندگی کے مختلف شعبوں میں شامل ہیں ۔

فوائد اور ترقیاتی کام:

خیبر میں فاٹا انضمام اور سال 2019 ءکے الیکشن کے بعد صوبائی حکومت کی اداروں کو فاٹا میں پہنچ دی گئی ۔ پولیٹیکل ایجنٹ کی بجائے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر آگئے۔ ترقیاتی کاموں میں پہلی بار سڑکوں پر بہت کام ہوا ۔ فوائد میں سب سے بڑا وکیل اور دلیل عدالت تک رسائی مل گئی، اس سے پہلے ایک فرد واحد سارے فیصلے کرتا جرگہ سسٹم تھا جو وہ فیصلہ کرتے بس وہ آخر ہوتا تھا۔

علاقائی مسائل :

پینےکے لیے صاف پانی کی فراہمی ضلع خیبر کا ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ علاقے میں کوئی لنک روڈ نہیں ہے۔ کچھ خاص ترقیاتی کام نہ ہو سکے جس کی وجہ انضمام کے وقت سالانہ سو ارب روپےکی ایڈ جو تا حال نہ مل سکی ، معدنیات پر حکومت کا قبضہ ، علاقہ میں جنگلات ، قیمتی پتھر اور کوئلہ کے بہت ذخائر ہیں جس پر صوبائی حکومت قبضہ کر رہی اور اس وجہ سے دشمنیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی اور پانی کے مسائل پر بھی کوئی شنوائی نہیں ہے ۔

قبائل:

ضلع خیبر میں قبائل کی اکثریت آفریدی ہے۔ تاہم دیگر قبائل بھی آباد ہیں۔ ان میں ملاگوریاں، شلمانیاں، بنگش اور شنواریاں شامل ہیں۔ ضلع خیبر کے بڑے قبیلے شنواری، آفریدی، ملاگوری اور شلمانی ہیں۔ اس کے باوجود آبادی کی اکثریت آفریدی ہے۔

وادی تیراہ میں تمام آفریدی قبیلوں کے اپنے علاقے ہیں، اور ان میں سے اکثر خیبر پاس تک پھیلے ہوئے ہیں جس پر انہوں نے ہمیشہ ٹول کا حق استعمال کیا ہے۔ ملک الدین خیل تیراہ کے وسط میں رہتے ہیں اور باغ کا انعقاد کرتے ہیں جو کہ آفریدی جرگوں یا اسمبلیوں کا روایتی جلسہ گاہ ہے۔ آکا خیل جمرود کے جنوب میں پہاڑیوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ تمام علاقہ خیبر ایجنسی میں شامل ہے۔ آدم خیل پشاور اور کوہاٹ کے درمیان پہاڑیوں میں رہتے ہیں۔ ان کا محفوظ درہ کوہاٹ ہے جس میں آفریدی بندوق کی کئی اہم فیکٹریاں واقع ہیں۔