
لاہور میں مقبرہ نورجہاں کی تاریخ تقریباً چھ سو سال قدیم ہے۔ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے یہ مقبرہ اپنی زندگی میں خود تعمیر کرایا۔ سرد اور گرم حالات نے مقبرے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
تفصیل کے مطابق لاہور کے علاقے شاہدرہ میں مغل دور کی یادگار ہے۔ شہنشاہ جہانگیر کی بیگم نورجہاں کے مقبرے کی پُرشکوہ عمارت اور اس سے ملحقہ پارک میں کھلے پھول مسحور کن نظارہ پیش کرتے ہیں۔
لیکن جیسے جیسے مقبرے کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو خوش فہمی، مایوسی میں بدل جاتی ہے۔ مقبرے کی تعمیرنو اور تزئین و آرائش کا کام ادھورا پڑا ہے۔ راہداری ہے تو روشنی کا کوئی انتظام نہیں ، رہی سہی کسر یہاں آنے والوں کی بدنما تحریروں نے پوری کر دی ہے۔
اس مقام پر ملکہ نورجہاں اور اس کی بیٹی لاڈلی بیگم کی قبریں ہیں۔ سکھ دور میں مقبرے کو شدید نقصان پہنچا اور قبریں بھی اکھاڑ دی گئیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق نورجہاں اور اس کی بیٹی کی اصل قبریں تہہ خانے میں ہیں۔
اس جگہ کی زنجیر کے ساتھ نشاندہی کی گئی ہے جبکہ گراونڈ فلور پر قبروں کی محض نشانی رکھی گئی ہے۔ شہریوں نے تاریخی ورثے کی حفاظت پر زور دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تاریخی ورثے کو محفوظ اور پرکشش بنا کر سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
مغل ملکہ نورجہاں کا شمار 17ویں صدی میں ہندوستان کی سب سے بااثرخواتین میں ہوتا تھا۔ انہوں نے مغل سلطنت میں تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ ملکہ نورجہاں کا پیدائشی نام مہرالنساء تھا، لیکن جب ان کی شادی مغل خاندان میں ہوئی تو ان کے شوہر نے ان کو نور جہاں کا خطاب دیا۔وہ افغانستان کے علاقے قندھار میں پیدا ہوئی تھیں۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ نور جہاں کی پیدائش برطانوی ملکہ الزبتھ اول کے پیدا ہونے کے چند دہائیوں بعد ہی ہو گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نورجہاں ماہر فن تعمیر کیساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کی شکاری اور شاعرہ بھی تھیں۔ انھیں فنون لطیفہ سے خاص شغف تھا۔
کہتے ہیں کہ ملکہ نورجہاں کے پہلے شوہر کا نام شیرافگن تھا، جن سے ان کی شادی 1594ء میں انجام پائی۔ اس شخص سے ہی ان کی واحد اولاد ہوئی۔ وہ شادی کے بعد شیر افگن کیساتھ بنگال منتقل ہو گئی تھیں جو اپنے وقت کا ایک امیر صوبہ تھا۔تاہم بادشاہ جہانگیر کیخلاف سازش کے الزام میں شیرافگن کو قتل کر دیا گیا تھا۔
بیوہ ہونے کے بعدملکہ نورجہاں کوبادشاہ جہانگیر کے حرم میں ٹھہرایا گیا۔ یہی انہوں نے اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے ناصرف حرم کی خواتین بلکہ خود بادشاہ کے دل میں بھی جگہ بنا لی۔ یوں بالاخر مغل بادشاہ جہانگیر نے نورجہاں سے 1611ء میں عقد کرلیا۔ نورجہاں، بادشاہ جہانگیر کی 20ویں اور آخری بیوی تھیں۔
17 دسمبر 1645 ءکومغل ملکہ نورجہاں اس دنیائے دارفانی سے کوچ کر گئیں۔ لاہورکے قریبی علاقے شاہدرہ میں "باغ دل کشا "میں وہ بادشاہ جہانگیر کے مقبرے کے قریب مدفن ہیں۔
قندھار میں آنکھ کھولنے والی دنیا کی یہ عظم خاتون ملکہ نورجہاں آج لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔ملکہ نورجہاں کو لاہور سے بڑی محبت اورعقیدت تھی جس کا اظہارانہوں نے اپنے اس شعر کی صورت میں کیا تھا۔
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنتِ دیگر خرید ہ ایم




404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage