چیف جسٹس کا ججوں کے خط پر فل کورٹ تشکیل دینے کا عندیہ
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر فل کورٹ تشکیل دینے کا عندیہ دے دیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شاید اس معاملے کے لئے فل کورٹ تشکیل دے دیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ تھے۔ اٹارنی جنرل اور لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے کل ایک درخواست دائر کی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے بہتر کون قانون جانتا ہے، آپ کی درخواست ابھی ہمارے پاس نہیں آئی، جب درخواست آجائے تو انتظامی کمیٹی اس پر فیصلہ کرتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد چیف جسٹس اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، آج کل پروپیگنڈا جو ہورہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، جب ججز کا خط موصول ہوا ڈھائی گھنٹے تک ہائیکورٹ ججز سے ملاقات کی، اگر ہم اس بات کو اہمیت نہ دیتے تو رمضان میں ججز سے فوری ملاقات کیوں کرتے، چار سال تک فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، اس وقت سارے وکلاء کہاں تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم کسی بھی قسم کا پریشر برداشت نہیں کریں گے، وزیر اعظم سے بطور ایڈمنسٹریٹو ہیڈ ملاقات کی، وزیر اعظم سے ملاقات میں وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے، ہم اس ملاقات کو آفیشل بنانا چاہتے تھے، وزیر اعظم ایدمنسٹریٹو ہیڈ بھی ہیں اور ایک حد تک مقننہ کے بھی ہیڈ ہوتے ہیں۔ وزیراعظم سے ہم نے ملاقات ایگزیکٹو معاملہ پر کی، وزیر اعظم جب بتایا تو انھوں نے کہا فوری ملاقات کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو فل کورٹ کے بعد جاری پریس ریلیز پڑھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ہم شاید پروپیگنڈا میں گوئبلز کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، تصدق حسین جیلانی اور ناصرالملک کے نام ہم نے تجویز کیئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر انکوائری کمیشن سے متعلق غلط باتیں کی گئیں، حکومتی کمیشن کی تمام حکومتی ادارے معاونت کے پابند ہیں، سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا نام بھی انکوائری کمیشن کیلئے سامنے آیا، تصدق جیلانی صاحب ایک غیر جانبدار شخصیت کے مالک ہیں، وزیر اعظم سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے ملے اور کمیشن کی تشکیل کا بتایا، سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے کہا ٹی او آرز کے بعد جواب دونگا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہونگے، عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے، وکلا تب کیوں نہیں بولے جب چار سال تک فل کورٹ اجلاس نہیں ہوا، ہمیں کسی قسم کا دباو نہیں لیں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس معاملے کی انکوائری ایک خدمت ہے، لیکن تصدق حسین جیلانی سے متعلق سوشل میڈیا پر تنقید ہوئی، سوشل میڈیا کو دیکھ اور سن کر مجھے شرمندگی محسوس ہوئی، ہر شریف آدمی سوشل میڈیا پر جواب نہیں دیتا، تصدق حسین جیلانی کے ساتھ بھی یہی ہوا، تصدق حسین جیلانی نے اسی وجہ سے انکار کر دیا۔ یہ بھی پڑھیں https://sunonews.tv/02/04/2024/pakistan/75389/ دو روز قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ واضح رہے کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔ ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔ اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔ تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے منظر عام پر آنے والے خط میں کہا گیا تھا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔ اس کے ایک روز بعد مختلف حلقوں سے اس کی تحقیقات کے مطالبات سامنے آئے، جس کے پیشِ نظر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا۔ 28 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسیٰ سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔ 30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ 31 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انٹیلی جنس اپریٹس کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage