
ڈونلڈ ٹرمپ اس موقع پر خاصے پرامید نظر آرہے ہیں، بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اگر مجھے نوبل انعام نہیں دیا گیا تو یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی توہین ہوگی۔
ٹرمپ کے قریبی حلقے بھی پُرامید ہیں کہ ان کی پالیسیوں اور عالمی سطح پر کیے گئے اقدامات کے باعث اس بار کمیٹی انہیں نظرانداز نہیں کرے گی۔
دوسری جانب ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں عالمی امن کیلئے کئی نمایاں کام کیے، جن میں غزہ جنگ بندی معاہدہ، ابراہام معاہدے اور کووِڈ-19 ویکسین کی فوری تیاری شامل ہیں۔
ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے نہ صرف 7 بڑی جنگوں کے خاتمے میں کردار ادا کیا بلکہ روس یوکرین تنازعے کے حل کیلئے بھی کوششیں کیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل میں جنگ بندی کا اعلان نوبل امن انعام کے اعلان سے محض دو دن قبل سامنے آیا، جس پر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ نوبل کمیٹی کے اعلان کی ٹائم لائن نے دونوں فریقوں پر دباؤ ڈالا تاکہ معاہدہ جلد طے پا سکے اور اس کا سیاسی فائدہ ٹرمپ کو حاصل ہو۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان، اسرائیل، کمبوڈیا اور تائیوان کی جانب سے بھی ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کیلئے نامزد کیا ہے، جبکہ امریکہ کے اندر بھی Pfizer کے سی ای او البرٹ بورلا اور سینیٹر بل کیسیڈی سمیت کئی اہم شخصیات نے انہیں اس اعزاز کیلئے موزوں قرار دیا ہے۔
تاہم اوسلو پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر نینا گریگر کے مطابق نوبل انعام ہمیشہ گزشتہ سال کی کارکردگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ چونکہ 2024 میں ٹرمپ منتخب تو ہو گئے تھے مگر انہوں نے صدارتی عہدہ سنبھالا نہیں تھا، اس لیے اُن کی سرگرمیاں فیصلے پر اثرانداز نہیں ہو سکتیں۔
نوبل کمیٹی کے سربراہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ رواں سال کے انعام پر فیصلہ پیر کے روز ہی کر لیا گیا تھا،باوثوق ذرائع کے مطابق اس سال کی ممکنہ فہرست میں ٹرمپ کا نام شامل نہیں ہے، بلکہ ایسے ادارے نمایاں ہیں جن سے ٹرمپ کے تعلقات ماضی میں کشیدہ رہے۔