
ان شہداء میں ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری، پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور سابق نیشنل سکیورٹی چیف علی شمخانی شامل ہیں۔
یہ نقصان ناصرف ایران کی فوجی قیادت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے بلکہ اس سے ایران کے دفاعی نظام کو بھی شدید دھچکا لگا ہے، ان رہنماؤں کی شہادت نے ایرانی قوم کو سوگ میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ ملک کے دفاعی ڈھانچے پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔
میجر جنرل محمد باقری
میجر جنرل محمد باقری 2016 سے ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے جہاں وہ پانچ لاکھ سے زائد اہلکاروں کی قیادت کر رہے تھے، انہوں نے ایران کی دفاعی حکمت عملی کو منظم اور مربوط رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
جنرل باقری2019 میں امریکی پابندیوں کے باوجود وہ اپنی مزاحمتی سوچ پر قائم رہے، 2017 میں وہ شام میں ایرانی فوجیوں کے شانہ بشانہ میدانِ جنگ میں بھی دکھائی دیے، اپریل میں انہوں نے سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کا تہران میں استقبال کیا جو ان کی سفارتی فراست کا بھی مظہر تھا۔
باقری کو ایک سچا محب وطن قرار دیا جاتا ہے جن کی قیادت، جرات اور قربانی ہمیشہ ایران کی دفاعی تاریخ کا حصہ رہے گی۔
میجر جنرل حسین سلامی
میجر جنرل حسین سلامی 2019 سے ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے سربراہ تھے، وہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے براہِ راست ماتحت تھے اور ایران کی علاقائی حکمت عملی اور دفاعی خودمختاری کے محافظ سمجھے جاتے تھے۔
ان کی قیادت میں ایران نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپریل اور اکتوبر میں براہِ راست جوابی میزائل و ڈرون حملے کیے جو تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی سرزمین پر ایران کا براہِ راست حملہ تھا۔ جنرل حسین سلامی زیرِ زمین فوجی تنصیبات کا معائنہ بھی کرتے رہے اور انہوں نے ایران کے میزائل پروگرام کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ، جوہری اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ
سلامی کی شہادت نے ایران کو ایک بے مثال رہنما سے محروم کر دیا جو آخری دم تک مادرِ وطن کے تحفظ کے لیے میدان میں ڈٹے رہے۔
علی شمخانی
علی شمخانی ایران کی قومی سلامتی کے مشیر اور سابق وزیر دفاع تھے جنہیں ایرانی سپریم لیڈر کا قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھی سمجھا جاتا تھا، 2013 سے 2023 تک وہ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری رہے اور انہوں نے خطے میں امن کے قیام کے لیے اہم سفارتی کردار ادا کیا۔
انہوں نے چین کی ثالثَی میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا، اگرچہ انہیں 2023 میں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا مگر وہ جوہری مذاکرات اور علاقائی حکمت عملی میں قائدانہ مشاورت دیتے رہے۔
شمخانی کو طاقت اور حکمت کا حسین امتزاج مانا جاتا ہے جن کی موت نے ایران کو ایک تجربہ کار اور مدبر رہنما سے محروم کر دیا ہے۔