تفصیلات کے مطابق جموں میں منشیات کے ایک گروہ میں ملوث بھارتی پولیس کانسٹیبل کو ہیروئن فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔یہ واقعہ بھارت نہ صرف مقامی شہریوں بلکہ قومی سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
واضح رہے کہ پولیس اہلکار کا تعلق جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج اور اسپتال سے منشیات کا کاروبار چلانے والے ایک گروہ سے تھا۔
منشیات انسداد کے ادارے کے مطابق یہ اہلکار ایک منظم گروہ کا حصہ تھا جو نوجوانوں کو نشے کی لت میں مبتلا کر کے مالی فائدہ اٹھا رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں نوجوان نسل میں نشے کا استعمال بڑھ رہا ہے اور زیادہ مقدار لینے کے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں۔
حکام نے تصدیق کی ہے کہ یہ گروہ بھارت کے اندر سے ہی کنٹرول کیا جا رہا ہے،جس کی تفتیش ایس پی سٹی نارتھ برجیش شرما کر رہے ہیں۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کانسٹیبل پرویز خان جسے 7 نومبر کو گرفتار کیا گیا،اس کے گھر سے ہیروئن اور تقریباً ڈھائی لاکھ روپے کی نقدی برآمد ہوئی،اس کیس میں پرویز کی دو بیویوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ صرف پولیس ہی نہیں بلکہ بھارتی فوج کے افسران بھی منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔گزشتہ چند سالوں میں متعدد کیسز منظر عام پر آئے جن میں بھارتی فوجی افسران پر منشیات کے کاروبار اور اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی منشیات کی فراہمی اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ سب بھارت کی اپنی منڈی کا حصہ ہے۔ 2021-22 میں گجرات اور مندرہ پورٹ پر لاکھوں ڈالر کی ہیروئن پکڑے جانے کے بعد بھارت کے سرکاری اداروں کے منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔
بھارت کی سیکیورٹی ایجنسیز کی جانب سے اکثر پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بھارت میں منشیات اسمگلنگ میں ملوث ہے،جو کہ بھارتی ایجنسیز کا پرانا وطیرہ ہے۔ تاہم حالیہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت کو اپنے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی منشیات کی منڈی قرار دیا گیا ہے، جہاں منشیات کا کاروبار بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی فوج کو اکثر اندرونی اختلافات اور علاقائی جانبداری کا سامنا رہتا ہے،جس سے یہ ایک غیر منظم قوت کے طور پر جانی جاتی ہے۔فوج کے کچھ اہلکار اپنے ذاتی مفادات کیلئے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر غیر قانونی ذرائع سے پیسہ بھی بنا رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں IIOJK میں کئی فوجی اور پولیس اہلکار منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ایل او سی پر تعینات کچھ بھارتی فوجی افسران جعلی CASOs کا سہارا لے کر اس کراس بارڈر منشیات نیٹ ورک کو چلا رہے ہیں۔2021 میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ایک کراس بارڈر منشیات-دہشت گردی نیٹ ورک میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا،جس میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) نے ایک بی ایس ایف افسر کو کپواڑہ کے ضلع ہندواڑا میں گرفتار کیا۔
یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے الزام تراشی کی حکمت عملی کا مقصد بین الاقوامی سطح پر توجہ کو IIOJK میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہٹانا اور حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے۔ بھارت کے مختلف علاقوں میں منشیات کی اسمگلنگ اور فوج و پولیس کی اس میں مبینہ مداخلت نے ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔
یہ صورتحال بھارتی حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ پولیس اور فوجی اہلکاروں کا منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونا بھارتی عوام اور بین الاقوامی برادری میں تشویش کا باعث ہے۔