اسرائیل کی جنگ کس طرح اس کی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے؟
How is Israel's war hurting its economy?
یروشلم:(ویب ڈیسک)پچھلے ایک سال میں اسرائیل نے غزہ اور جنوبی لبنان میں ہزاروں فوجی بھیجے ہیں۔ اس نے وہاں پر ہزاروں فضائی حملے کیے ہیں۔
 
اور اس کے علاوہ اسرائیل اپنی طرف آنے والے میزائلوں اور ڈرونز کو فضائی دفاعی نظام کے ذریعے تباہ کرنے میں کروڑوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔
 
اسرائیلی حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ حماس اور حزب اللہ کے خلاف جاری جنگ کی لاگت 60 بلین ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔
 
اس جنگ نے پہلے ہی اسرائیل کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
 
اسرائیل کو اس جنگ کی کیا قیمت چکانی پڑے گی؟
 
اسرائیلی وزیر خزانہ Bezalel Smotrich نے ستمبر 2024 ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کو بتایا، "ہم اسرائیل کی تاریخ کی سب سے طویل اور مہنگی جنگ میں ہیں۔"
 
اس دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس فوجی آپریشن کی لاگت 200 بلین سے 250 بلین شیکل (54 بلین سے 60 بلین ڈالر) کے درمیان ہو سکتی ہے۔
 
لبنان پر اسرائیل کی بمباری، جنوبی لبنان میں فوجیوں کی موجودگی میں اضافہ اور ایرانی حملوں کے جواب میں وہاں فضائی حملے اس جنگ کے اخراجات میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
 
برطانیہ کی شیفیلڈ ہالام یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اے الگراہی کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل جنگ کو مزید بڑھاتا ہے، اگر یہ جنگ 2025 ء تک جاری رہی تو اس کی تخمینہ لاگت 350 بلین شیکل (93 بلین ڈالر) تک بڑھ سکتی ہے۔
 
یہ اسرائیل کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا چھٹا حصہ ہے، جو کہ 1.99 ٹریلین شیکل ($530 بلین) ہے۔
 
اسرائیل جنگ کے لیے پیسے کیسے اکٹھا کر رہا ہے؟
 
بینک آف اسرائیل نے سرکاری بانڈز کی فروخت میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ جنگ کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
 
بینک نے مارچ 2024 ء میں ایک ایشو کے لیے بانڈز کی فروخت سے 8 بلین ڈالر اکٹھے کیے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
 
اسرائیل اپنے بانڈز اسرائیل اور بیرون ملک قرض دہندگان کو فروخت کر رہا ہے۔ ان میں "ڈائیاسپورا بانڈز" بھی شامل ہیں، جو اسرائیل سے باہر یہودی لوگوں کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔
 
بینک آف اسرائیل کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی اسرائیلی سرکاری بانڈز خریدنے میں کم دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔
 
بینک کا کہنا ہے کہ صرف 8.4 فیصد بانڈز بیرون ملک رکھے گئے تھے، جب کہ ستمبر 2023 ء میں یہ تعداد 14.4 فیصد تھی۔ اس کے بعد اکتوبر کے مہینے میں حماس کے ساتھ اسرائیل کی جنگ شروع ہو گئی۔
 
اسرائیلی بانڈز خریدنے میں غیر ملکیوں کی ہچکچاہٹ کے بارے میں، تل ابیب یونیورسٹی کے ماہر معاشیات، پروفیسر مینوئل ٹریلن برگ کہتے ہیں، "اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر ملکیوں کو خریدنے کی طرف راغب کرنے کے لیے ان پر سود کی شرح بڑھا دی گئی۔"
 
"اس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے ادا کیے گئے قرض کی لاگت میں 1.5 فیصد اضافہ ہوا ہے،" ٹریلن برگ کہتے ہیں۔
 
اس کے علاوہ، تین بڑی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں - Moody s, Fitch اور Standard & Poor s - نے اگست 2024 کے آغاز سے اسرائیلی حکومت کے قرضوں کو گھٹا دیا ہے۔
 
ایجنسیوں کی جانب سے اسرائیل کی ریٹنگ کم کرنے کے معاملے پر تل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈاکٹر ٹومر فیڈلون کا کہنا ہے کہ ایجنسیوں نے اپنی ریٹنگ اس لیے کم نہیں کی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اسرائیلی حکومت بانڈز کی ادائیگی نہیں کر سکے گی۔
 
بلکہ، انہوں نے کہا، "کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ ان کی تشویش مالیاتی خسارے پر حکومت کی حکمت عملی کے فقدان پر ہے، کیونکہ حکومت کو 2025 ء تک اخراجات کا انتظام بھی کرنا ہے۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل میں پبلک فنانس کی صورتحال بہتر ہے۔
 
"حکومت ٹیکس بڑھا سکتی ہے"
 
پروفیسر کورنیٹ فلگ اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ میں ماہر معاشیات اور بینک آف اسرائیل کے سابق گورنر ہیں۔
 
وہ کہتی ہیں کہ حکومت بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے بجٹ میں 37 بلین شیکل (9.9 بلین ڈالر) کی کمی اور ٹیکسوں میں اضافے پر غور کر سکتی ہے۔
 
وہ کہتی ہیں، "تاہم، حکومت کے کچھ منصوبوں کو مزدور یونینوں اور حکومت کے کچھ اتحادیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"
 
بہت سے ماہرین اقتصادیات نے حکومت سے 2025 ءکا بجٹ پیش کرنے کی اپیل کی ہے، جس میں فوجی اخراجات میں اضافے کا ایک مقررہ سیٹ بھی بتایا جائے۔
 
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے پروفیسر ایسٹیبن کلور کا کہنا ہے کہ جنگ کی مالی اعانت کے لیے بجٹ میں کمی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
 
وہ کہتی ہیں، ’’جنگ کے لیے فوجی حکمت عملی کے ساتھ کوئی اقتصادی حکمت عملی نہیں ہوتی۔
 
جنگ کے اسرائیل کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
 
اکتوبر 2023 ءتک اسرائیل کی معیشت مضبوطی سے ترقی کر رہی تھی۔ لیکن، جب جنگ شروع ہوئی تو اس میں تیزی سے کمی آئی۔
 
عالمی بینک کے مطابق اس پورے سال اسرائیل کی جی ڈی پی میں 0.1 فیصد کی کمی آئی ہے۔
 
بینک آف اسرائیل کا اندازہ ہے کہ 2024 ءمیں اسرائیل کی معیشت صرف 0.5 فیصد بڑھے گی۔
 
یہ اس تخمینہ سے بھی بدتر ہے جو بینک آف اسرائیل نے جولائی میں لگایا تھا۔ تب بینک نے کہا تھا کہ اسرائیل کی معیشت 2024 ءمیں 1.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔
 
اس ایک سال میں اسرائیل میں کئی فرموں نے عملہ کم کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا کاروبار بھی محدود ہو گیا ہے۔
 
اس کی وجہ حماس کے ساتھ جنگ ​​شروع ہونے کے بعد اسرائیل کی دفاعی افواج کی طرف سے 3 لاکھ 60 ہزار ریزروسٹ (ملٹری ریزرو فورس کے ارکان) کی کال ہے۔
 
ان میں سے کئی کو ہٹا دیا گیا ہے لیکن فی الحال لبنان میں 15 ہزار ریزروسٹ (ملٹری ریزرو فورسز کے ارکان) کو واپس بلا لیا گیا ہے۔
 
اسرائیل میں مزدوروں کی کمی:
 
حکومت نے غزہ اور مغربی کنارے کے تقریباً 2 لاکھ 20 ہزار فلسطینیوں کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
 
یہ لوگ یہاں کام کرنے آتے تھے لیکن سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسرائیل نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
 
جس کی وجہ سے تعمیراتی شعبہ خاص طور پر متاثر ہوا ہے جس میں تقریباً 80 ہزار فلسطینی کام کرتے ہیں۔ ان کی جگہ اب ہندوستان، سری لنکا اور ازبکستان سے ہزاروں مزدور لائے جا رہے ہیں۔
 
پروفیسر فلگ جنگ کے دوران اسرائیلی معیشت کی زبوں حالی کے بارے میں کہتے ہیں، ’’یہ امکان ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد معیشت مضبوطی سے واپس لوٹ آئے گی‘‘۔
 
وہ اس کی وجہ اسرائیل کے ہائی ٹیک سیکٹر کو بتاتی ہیں، جو ملک کی معیشت کا پانچواں حصہ ہے۔
 
تاہم، وہ کہتی ہیں، "حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ پچھلی جنگوں کے مقابلے طویل رہی ہے اور اس نے آبادی کے ایک بڑے حصے کو متاثر کیا ہے، اسے ٹھیک ہونے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔"