کیا حسن نصراللہ کے قتل کے بعد اسلامی ممالک بٹ گئے؟
September, 30 2024
ریاض/ انقرہ:غزہ کے بعد لبنان اور اب یمن۔ اسرائیلی حملوں کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ شیعہ تنظیم کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو قتل کرنے کے بعد اسرائیل نے اب یمن میں حوثی شدت پسند تنظیم کے ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔
حوثی باغیوں کے گروپ کو ایران کی حمایت یافتہ شدت پسند تنظیم بھی کہا جاتا ہے۔حسن نصراللہ کے قتل کے بعد سنی مسلمانوں کی قیادت میں اکثر عرب ممالک نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے یا انتہائی محدود ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
سنی زیرقیادت عرب ممالک کو ایک مخمصے کا سامنا ہے کہ آیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائیں یا ایران کی مخالفت کریں، جو حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے۔
حسن نصراللہ گذشتہ 32 سالوں سے حزب اللہ کی قیادت کر رہے تھے اور ان کے دشمنوں میں اسرائیل اور مغرب کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے ممالک بھی شامل تھے۔
2016 ء میں خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر عرب لیگ نے حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا۔ تاہم اس سال عرب لیگ نے اسے دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔
سنی زیرقیادت سعودی عرب نے اتوار کی شام کہا کہ لبنان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ سعودی نے لبنان کی خودمختاری اور اس کی سلامتی کی بات کی۔ لیکن سعودی عرب نے نصراللہ کا ذکر نہیں کیا۔
جبکہ سنی قیادت والے ممالک قطر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین نصراللہ کے قتل پر مکمل خاموش ہیں۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین 2020 ء میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائےتھے۔ 2011 ء میں بحرین نے جمہوریت کی حمایت میں شیعہ برادری کی تحریک کو دبا دیا۔ بحرین شیعہ اکثریتی ملک ہے لیکن حکمران سنی ہیں۔
مثال کے طور پر شام کے حکمران شیعہ ہیں اور آبادی کی اکثریت سنی ہے۔خلیج تعاون کونسل (GCC) جو کہ چھ خلیجی ممالک (بحرین، عمان، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت) کی تنظیم ہے، نے لبنان کی خودمختاری، سلامتی اور استحکام کی حمایت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے ۔
جی سی سی نے لبنان اسرائیل سرحد پر فوری جنگ بندی پر اصرار کیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لبنانی حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی ہتھیار موجود نہیں ہونا چاہیے اور اس کی انتظامیہ کے علاوہ کوئی بھی انتظامیہ موجود نہیں ہونی چاہیے۔
یعنی GCC کا کہنا ہے کہ لبنان کی حکومت کے علاوہ وہاں کسی اور کا اثر و رسوخ نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔
بحرین میں مظاہرین کو حراست میں لیے جانے کی خبریں:
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بحرین میں ایران کے حمایت یافتہ Lualua ٹی وی نےحسن نصر اللہ سے ہمدردی ظاہر کرنے والی ایک ویڈیو نشر کی۔ اس چینل نے کہا کہ بحرینی حکومت نے نصراللہ کی حمایت میں آنے والے لوگوں پر حملہ کیا اور انہیں حراست میں لے لیا۔
بحرین کی حزب اختلاف کی ویب سائٹ Bahrain Mirror کا کہنا ہے کہ حکام نے شیعہ عالم کو اس لیے حراست میں لیا کیونکہ وہ حسن نصر اللہ کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس نے آزادانہ طور پر بحرینی میڈیا رپورٹس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لبنان کے وزیر اعظم نجیب میقاتی سے فون پر بات کی اورحسن نصر اللہ کا نام لیے بغیر کہا کہ مصر نے لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزیوں کو مسترد کر دیا ہے۔
مصر اپنی پراکسی تنظیموں اور اس کی پالیسیوں کے حوالے سے ایران کے خلاف رہا ہے۔ تاہم مصر اور ایرانی حکومت کے درمیان غیر رسمی بات چیت ہوتی رہی ہے۔
مصری صدر نے حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد کہا تھا کہ پورا خطہ مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصر چاہتا ہے کہ اس علاقے کے استحکام اور سلامتی کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے۔
السیسی نے اپنی ٹیلی ویژن تقریر میں حسن نصر اللہ کا نام تک نہیں لیا۔ شیعہ حکمرانوں کی حکومت والے ممالک شام اور عراق میں تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔
سنیچر تک کئی عرب ممالک میں حسن نصراللہ کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا تھا، بہت سے لوگوں نے ان کی موت پر غم کا اظہار کیا۔
عمان کے شاہی امام شیخ احمد بن حمد الخلیلی نے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ان کا ملک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے انتقال پر سوگ منا رہا ہے، جو پچھلے تین سالوں سے صہیونی منصوبے کے لیے کانٹا تھے۔
پاکستان میں احتجاج:
ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں لیکن اس نے غزہ پر حملے کی شدید تنقید کی ہے۔ترک صدر ایردوان نے ٹوئٹر پر کہا کہ لبنان میں ’نسل کشی‘ کی جا رہی ہے۔ حالانکہ انہوں نے براہ راست حسن نصراللہ کا ذکر نہیں کیا۔
پاکستان نے بھی حسن نصراللہ کی ہلاکت پر بیان جاری کیا تھا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی مہم جوئی کی مذمت کرتا ہے۔ لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قبول نہیں کریں گے۔
پاکستان نے یہ بھی کہا کہ وہ لبنان کے عوام اور اسرائیلی حملے کے متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔
حسن نصراللہ کے قتل کے بعد پاکستان میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اتوار کو لاہور اور کراچی کے علاوہ اسلام آباد اور پشاور میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ کراچی میں مظاہرے کے دوران جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا کہ اس شہادت کے بعد اسرائیل کا یہ سوچنا غلط فہمی ہے کہ حزب اللہ کی تحریک رک جائے گی اور وہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے لیے یہ صدمہ ہے کہ اس کے اعلیٰ رہنما کو اس طرح سے شہید کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے حزب اللہ کے رہنما کو بھی اسرائیل نے شہید کیا تھا۔ کیا اس کے بعد حزب اللہ ختم ہو گئی؟ اس کے بعد بھی تحریک جاری رہی اور مضبوط ہوتی گئی۔ "یہ یقیناً حزب اللہ کے لیے ایک دھچکا ہے، لیکن یہ دوبارہ اٹھے گی۔"
عرب کے کئی علاقوں میں جشن کیوں؟
حسن نصراللہ کے انتقال پر ایک طرف کچھ لوگوں نے غم کا اظہار کیا تو دوسری جانب کچھ لوگ جشن بھی منا رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر شام کے باغی گروپوں کے زیر قبضہ علاقے تھے۔
روس اور ایران کے علاوہ حزب اللہ نے بھی شام میں بشار الاسد کی فوج کی حمایت کی اور حکومت مخالف جنگجوؤں سے بہت سے علاقوں کا کنٹرول چھیننے میں اسد حکومت کی مدد کی۔
ایکس پر، عراق میں مقیم صحافی عمر الجمال نے لکھا، "شام میں حسن نصراللہ کی وجہ سے لاکھوں متاثرین ہیں۔ کیا وہ مسلمانوں سے رحم کی امید رکھتے ہیں؟
متحدہ عرب امارات میں مقیم صحافی سیف الدرائی نے شام میں جشن منانے والے لوگوں کی ایک ویڈیو پوسٹ کی۔ انہوں نے لکھا کہ حزب اللہ نے شام میں ہمارے بھائیوں کے خلاف وہ کیا جو یہودی نہیں کر سکے۔
اردنی سینیٹ کے سابق رکن محمد العزہ نے نیوز ویک میگزین میں لکھا ہے کہ 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کے دوران پوری عرب دنیا اور مسلم ممالک میں حزب اللہ کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئی تھیں لیکن آج تصویر بدل گئی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ حزب اللہ نے شام، عراق اور یمن میں مداخلت شروع کردی، اس کے علاوہ اس نے بحرین میں ہونے والے مظاہروں میں بھی کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے وہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے مسلمانوں کے خلاف بھی ہوگئی۔
وہ لکھتے ہیں، “حزب اللہ کی یمن، شام، عراق اور ایران کی کرپٹ حکومتوں کی حمایت نے عرب اور اسلامی ممالک کے عوام پر اسرائیل پر حملے سے زیادہ اثر ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسن نصر اللہ کی موت پر ان کے درمیان آنسو نہیں بہائے گئے۔
حزب اللہ نا صرف لبنان کی سب سے طاقتور کھلاڑی ہے بلکہ جنوبی ایشیاء کے لیے انقلابی وژن بھی رکھتی ہے۔ یہ نقطہ نظر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے متصادم رہا ہے۔
2016 ء میں، خلیج تعاون کونسل (GCC) نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔
اسی دوران حزب اللہ کی قیادت نے سعودی عرب کو اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے عروج کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ وہ سعودی عرب پر خطے میں فرقہ وارانہ تنازعات کو فروغ دینے کا الزام بھی لگاتے رہے ہیں۔
عرب دنیا میں بدلتے ہوئے مساوات کے درمیان یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ سعودی عرب سمیت حزب اللہ اور سنی اکثریتی ممالک کے درمیان تعلقات کیسے متاثر ہوں گے۔
اسلامی ممالک کا تضاد:
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ اس کے بعد سوڈان اور مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوڈان اور مراکش بھی مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔
سعودی عرب پر بھی ایسا ہی دباؤ تھا۔ لیکن سعودی عرب نے ایسا نہیں کیا اور کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک رسمی تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک فلسطین 1967 ء کی سرحدوں کے تحت ایک آزاد ملک نہیں بن جاتا۔ سعودی عرب مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔
ترکئی متحدہ عرب امارات اور بحرین پر تنقید کر رہے تھے کہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کیوں قائم کیے ہیں۔ یہ اس وقت ہے جب ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات 1949 ء سے ہیں۔ ترکی پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔
2005 ءمیں بھی، ایردوان تاجروں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ دو روزہ دورے پر اسرائیل گئے تھے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون سے ملاقات کی اور کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔
سعودی عرب اور حماس کے تعلقات بھی اتار چڑھاؤ سے بھرے رہے ہیں۔ 1980 ء کی دہائی میں اپنے قیام کے بعد سے حماس کے سعودی عرب کے ساتھ برسوں سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔
2019 ء میں سعودی عرب میں حماس کے بہت سے حامیوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس حوالے سے حماس نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں سعودی عرب کی مذمت کی گئی تھی۔ حماس نے سعودی عرب میں اپنے حامیوں پر تشدد کا الزام بھی لگایا تھا۔ سنہ 2000 ءکی دہائی میں حماس ایران کے قریب آگئی۔