حسن نصراللہ کون ہیں؟
Who is Hassan Nasrallah?
بیروت:(ویب ڈیسک)اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) نے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو شہید کر دیا گیا ہے۔
 
آئی ڈی ایف نے سوشل میڈیا ویب سائٹ X پر پوسٹ کیا، "حسن نصر اللہ اب دنیا کو دہشت زدہ نہیں کر سکیں گے۔"
 
تاہم حزب اللہ کی جانب سے اس خبر کی نہ تو تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی تردید۔
 
حسن نصراللہ ایک شیعہ عالم (مذہبی اسکالر) ہیں جو لبنان میں حزب اللہ گروپ کے سربراہ ہیں۔ اس گروپ کا شمار اس وقت لبنان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے جس کا اپنا مسلح ونگ بھی ہے۔
 
حسن نصراللہ، جو لبنان اور دیگر عرب ممالک دونوں میں مقبول ہیں، حزب اللہ کا مرکزی چہرہ سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس گروپ کی تاریخ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔
 
ایران اور علی خامنہ ای کے ساتھ ان کے بہت قریبی اور خصوصی تعلقات ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ حزب اللہ کو امریکا کی طرف سے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر درج کیا گیا ہے، نہ تو ایران کے رہنماؤں اور نہ ہی نصر اللہ نے کبھی اپنے قریبی تعلقات کو چھپایا ہے۔
 
حسن نصر اللہ کے جتنے پرجوش حامی ہیں جتنے ان کے دشمن ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے کے خوف سے برسوں تک عوام کے سامنے نہیں آئے۔ لیکن اس وجہ سے ان کے حامی ان کی تقریروں سے محروم رہتے ہیں۔
 
اس طرح کی تقریریں دراصل طاقت کے استعمال میں نصر اللہ کا اہم ہتھیار ہیں اور اس طرح وہ لبنان اور دنیا کے مختلف مسائل پر تبصرہ کرتے ہیں اور اپنے حریفوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
لبنان میں بہت سے لوگ اب بھی حزب اللہ کی 2006ء میں اسرائیل کے خلاف مہینوں تک جاری رہنے والی تباہ کن جنگ کو یاد کرتے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ یہ گروپ ملک کو ایک اور تنازع میں دھکیل سکتا ہے۔
 
حزب اللہ کے مقاصد میں سے ایک اسرائیل کی تباہی ہے، جسے وہ حماس سے زیادہ طاقتور دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔ حزب اللہ کے پاس ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ ہے جس میں میزائل بھی شامل ہیں جو طویل فاصلے تک اسرائیلی سرزمین پر حملہ کر سکتے ہیں۔ اس کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو بھی ہیں۔
 
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر حزب اللہ اس تنازع میں دوسرا محاذ کھولتی ہے تو اسے  ناقابل تصور  جواب دیا جائے گا۔
 
ایک مکمل جنگ لبنان کے لیے تباہ کن ہو گی اور اس کے لیے عوامی حمایت بہت کم ہے۔ لبنان برسوں سے معاشی بحران کا شکار ہے اور سیاسی تعطل کی وجہ سے وہاں حکومت صحیح طریقے سے کام نہیں کر پا رہی ہے۔
 
یہ واضح نہیں ہے کہ ان گروپوں پر تہران کا کتنا براہ راست اثر ہے، لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ ایران کی حمایت کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ کریں گے۔
 
گذشتہ اتوار کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ اسرائیل کے جرائم حد سے گزر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن ہمیں کہتا ہے کہ کچھ نہ کرو لیکن وہ بڑے پیمانے پر اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
 
حزب اللہ کے ایک قریبی ذریعے نے گذشتہ ہفتے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حسن نصر اللہ جو اسرائیل اور امریکا مخالف تقاریر کے لیے جانے جاتے ہیں، صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور عوامی خاموشی کے باوجود اس گروپ کے قریب تھے۔ عسکری قیادت سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
 
بچپن اور جوانی:
 
حسن نصر اللہ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔
 
حسن نصراللہ بیروت کے مشرق میں ایک غریب محلے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک چھوٹی سی دکان کے مالک تھے اور حسن  ان کے نو بچوں میں سب سے بڑے تھے۔
 
جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ان کی عمر پانچ سال تھی۔ یہ ایک تباہ کن جنگ تھی جس نے بحیرہ روم کے اس چھوٹے سے ملک کو پندرہ سال تک لپیٹ میں رکھا، اس دوران لبنانی شہری مذہب اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔
 
اس دوران مسیحی اور سنی ملیشیا گروپوں پر بیرونی ممالک سے مدد حاصل کرنے کا الزام لگایا گیا۔
 
جنگ کے آغاز کی وجہ سے حسن نصراللہ کے والد نے بیروت چھوڑنے اور جنوبی لبنان میں اپنے آبائی گاؤں میں واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں شیعہ اکثریت میں تھے۔
 
پندرہ سال کی عمر میں حسن نصراللہ اس وقت کے سب سے اہم لبنانی شیعہ سیاسی عسکری گروپ امل موومنٹ کے رکن بن گئے۔ یہ ایک موثر اور فعال گروہ تھا جس کی بنیاد ایرانی موسیٰ صدر نے رکھی تھی۔
 
اس دوران نصراللہ نے اپنی مذہبی تعلیم بھی شروع کی۔ نصراللہ کے اساتذہ میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ وہ شیخ بننے کا راستہ اختیار کریں اور نجف چلے جائیں۔ حسن نصر اللہ نے اس رائے کو قبول کیا اور سولہ سال کی عمر میں عراق کے شہر نجف چلے گئے۔
 
لبنان کا انخلاء اور مسلح تصادم:
 
حسن نصر اللہ کی نجف میں موجودگی کے دوران، عراق ایک غیر مستحکم ملک تھا، جس پر دو دہائیوں تک مسلسل انقلاب، خونریز شورش اور سیاسی قتل و غارت گری کا راج رہا۔ اس دور میں عراق کے اس وقت کے نائب صدر صدام حسین نے کافی غلبہ حاصل کر لیا تھا۔
 
حسن نصراللہ کے نجف میں صرف دو سال قیام کے بعد بعث پارٹی کے رہنماؤں اور خاص طور پر صدام حسین کے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ یہ تھا کہ تمام لبنانی شیعہ طلبہ کو عراقی مدارس سے نکال دیا جائے۔
 
حسن نصر اللہ نے ملک چھوڑنے سے پہلے صرف دو سال نجف میں تعلیم حاصل کی لیکن نجف میں ان کی موجودگی نے اس نوجوان لبنانی کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ نجف میں عباس موسوی نامی ایک اور عالم سے بھی ملاقات کی۔
 
موسوی کا شمار کبھی لبنان میں موسیٰ صدر کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ وہ ایران کے انقلابی رہنما آیت اللہ خمینی کے سیاسی وژن سے بہت متاثر تھے۔ وہ نصراللہ سے آٹھ سال بڑے تھے اور بہت جلد ایک سخت استاد اور موثر رہنما کا کردار سنبھال لیا۔
 
لبنان واپس آنے کے بعد یہ دونوں مقامی خانہ جنگی میں شامل ہو گئے۔ لیکن اس بار نصر اللہ عباس موسوی کے آبائی شہر گئے جہاں زیادہ تر آبادی شیعہ تھی۔
 
اس عرصے کے دوران نصراللہ امل تحریک کے رکن بن گئے اور عباس موسوی کے بنائے ہوئے مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔
 
ایرانی انقلاب اور حزب اللہ کا قیام:
 
حسن نصر اللہ کی لبنان واپسی کے ایک سال بعد ایران میں انقلاب برپا ہوا اور روح اللہ خمینی نے اقتدار سنبھال لیا۔ یہاں سے نا صرف لبنان کی شیعہ برادری کے ایران کے ساتھ تعلقات بالکل بدل گئے بلکہ ان کی سیاسی زندگی اور مسلح جدوجہد بھی ایران میں رونما ہونے والے واقعات اور رویوں سے کافی متاثر ہوئی۔
 
حسن نصر اللہ نے بعد میں تہران میں ایران کے اس وقت کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور خمینی نے انہیں لبنان میں اپنا نمائندہ بنایا۔
 
یہیں سے حسن نصر اللہ کے ایران کے دوروں کا آغاز ہوا اور ایرانی حکومت کے فیصلہ کن اور طاقتور مراکز کے ساتھ ان کے تعلقات قائم ہوئے۔
 
ایران لبنان کی شیعہ برادری کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی وجہ سے فلسطینی تحریک بھی انقلابی ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم ترجیحات میں شامل تھی۔
 
اس عرصے کے دوران خانہ جنگی میں گھرا ہوا لبنان فلسطینی جنگجوؤں کے لیے ایک اہم اڈہ بن گیا اور قدرتی طور پر بیروت کے علاوہ جنوبی لبنان میں بھی ان کی مضبوط موجودگی تھی۔
 
لبنان میں بڑھتی ہوئی عدم استحکام کے درمیان اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور اس ملک کے اہم مراکز پر تیزی سے قبضہ کر لیا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے فلسطینی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کیا۔
 
اسرائیلی حملے کے فوراً بعد، ایران میں پاسداران انقلاب اسلامی (اسلامی انقلاب کے محافظ) کے فوجی کمانڈروں نے لبنان میں ایران سے منسلک ایک فوجی گروپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تحریک حزب اللہ تھی اور حسن نصر اللہ اور عباس موسوی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے امل تحریک کے کچھ دوسرے ارکان کے ساتھ اس نو تشکیل شدہ گروہ میں شمولیت اختیار کی۔
 
اس گروہ نے لبنان میں امریکی فوجیوں کے خلاف مسلح کارروائیاں کرکے خطے کی سیاست میں تیزی سے اپنا نام پیدا کیا۔
 
جب حسن نصر اللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی تو ان کی عمر صرف 22 سال تھی اور انہیں ایک نوخیز سمجھا جاتا تھا۔
 
حسن نصراللہ کے ایران کے ساتھ تعلقات دن بہ دن گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی دینی تعلیم جاری رکھنے کے لیے ایران کے شہر قم جانے کا فیصلہ کیا۔ نصراللہ نے قم میں دو سال تک تعلیم حاصل کی اور اس عرصے میں فارسی سیکھی اور ساتھ ہی ایرانی لوگوں میں بہت سے قریبی دوست بنائے۔
 
لبنان واپسی پر ان کے اور عباس موسوی کے درمیان ایک اہم تنازع کھڑا ہو گیا۔ اس وقت موسوی شام کے صدر حافظ اسد کے حامی تھے۔ لیکن نصر اللہ نے اصرار کیا کہ حزب اللہ کی توجہ امریکی اور اسرائیلی فوجیوں پر حملے پر مرکوز رہے گی۔
 
حزب اللہ میں نصر اللہ کے حامیوں کی تعداد کم ہونے کے بعد کچھ عرصے بعد انہیں ایران میں حزب اللہ کا نمائندہ بنا دیا گیا۔ وہ ایک بار پھر ایران واپس آئے لیکن خود کو حزب اللہ سے دور کر لیا۔
 
اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ حزب اللہ پر ایران کا اثر روز بروز کم ہو رہا ہے۔ یہ کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کو ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ شام کی حمایت کرنے والے عباس موسوی کو نیا سربراہ بنا دیا گیا۔
 
سیکرٹری جنرل طفیلی کی برطرفی کے بعد حسن نصر اللہ واپس آئے اور عملی طور پر حزب اللہ کے نائب سربراہ بن گئے۔
 
حزب اللہ کی قیادت:
 
عباس موسوی کے حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد، انہیں اسرائیلی ایجنٹوں نے قتل کر دیا اور اسی سال، 1992 ء میں، گروپ کی قیادت حسن نصر اللہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔
 
اس وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔ اس وقت، لبنان کی خانہ جنگی کے خاتمے کو ایک سال ہو چکا تھا اور نصر اللہ نے حزب اللہ کے سیاسی ونگ کو اپنے عسکری ونگ کے ساتھ ساتھ ملک میں ایک سنجیدہ کھلاڑی بنانے کا فیصلہ کیا۔
 
اس حکمت عملی کے بعد حزب اللہ لبنانی پارلیمنٹ کی آٹھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
 
طائف معاہدے کے تحت، جس نے لبنان کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا، حزب اللہ کو اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی گئی۔ اس وقت اسرائیل نے جنوبی لبنان پر قبضہ کر رکھا تھا اور حزب اللہ مسلح تحریک چلا رہی تھی۔
 
لبنان کے حزب اللہ گروپ کو ایران سے مالی مدد مل رہی تھی، اور اس طرح حسن نصر اللہ نے ملک میں اسکولوں، ہسپتالوں اور امدادی مراکز کا ایک وسیع نیٹ ورک بنایا۔ یہ فلاحی پہلو لبنان میں حزب اللہ کی سیاسی تحریک کی شناخت کا ایک اہم حصہ بن گیا۔
 
اسرائیل کی پسپائی اور حسن نصراللہ کی مقبولیت:
 
حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ گروپ کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا۔2000 ءمیں اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ لبنان سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے گا اور اس ملک کے جنوبی علاقے پر اپنا قبضہ ختم کر دے گا۔ حزب اللہ گروپ نے اس موقع کو ایک عظیم فتح کے طور پر منایا اور اس فتح کو حسن نصر اللہ سے منسوب کیا۔
 
یہ پہلا موقع تھا کہ اسرائیل نے امن معاہدے کے بغیر کسی عرب ملک کی سرزمین کو یکطرفہ طور پر چھوڑا تھا اور اسے خطے کے بہت سے عرب شہریوں کی نظر میں ایک اہم کامیابی قرار دیا گیا تھا۔
 
لیکن اس وقت سے، لبنان کے ہتھیاروں کا مسئلہ لبنان کے استحکام اور سلامتی کا ایک اہم سوال بن گیا ہے۔ لبنان سے اسرائیل کے انخلاء کی وجہ سے حزب اللہ گروپ مسلح رہنے کی اپنی قانونی صلاحیت کھو بیٹھا اور غیر ملکی طاقتوں نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کو کہا لیکن حسن نصر اللہ نے کبھی اس پر اتفاق نہیں کیا۔
 
2002 ءمیں حسن نصر اللہ نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر بات چیت کی، جس کے دوران 400 سے زائد فلسطینی، لبنانی قیدیوں اور دیگر عرب ممالک کے شہریوں کو رہا کیا گیا۔
 
اس وقت نصراللہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور بااثر دکھائی دے رہے تھے اور لبنانی سیاست میں ان کے حریفوں کے لیے ان کا مقابلہ کرنا اور ان کے غلبہ اور طاقت کو کم کرنا ایک بڑا چیلنج بن گیا تھا۔
 
حریری کا قتل اور شام واپسی:
 
1983 ء میں اس وقت کے لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد عام رائے بدل گئی۔ رفیق حریری کا شمار سعودی عرب کے قریب ترین رہنماؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے حزب اللہ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
 
حریری کے قتل کے بعد عام لوگوں کا غصہ حزب اللہ اور شام کے خلاف ابل پڑا۔ اس پر حریری کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ بیروت میں اپوزیشن کے زبردست مظاہروں کے بعد شام نے اعلان کیا کہ وہ بھی لبنان سے اپنی فوجیں نکال لے گا۔
 
لیکن جب اسی سال پارلیمانی انتخابات ہوئے تو نہ صرف حزب اللہ کے ووٹوں میں اضافہ ہوا بلکہ یہ گروپ دو وزارتیں لینے میں بھی کامیاب ہو گیا۔
 
یہاں سے حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کو ایک لبنانی قوم پرست گروہ کے طور پر پیش کیا جو دوسری طاقتوں کے سامنے نہیں جھکتا۔
 
2005 ءکے موسم گرما میں حزب اللہ کے جنگجو اسرائیل میں داخل ہوئے اور ایک فوجی کو ہلاک اور دو کو گرفتار کر لیا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے زبردست حملہ کیا جو 33-34 دنوں تک جاری رہا اور اس دوران تقریباً 1200 لبنانی مارے گئے۔
 
اس جنگ کے بعد حسن نصر اللہ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا جنہیں عرب ممالک میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے آخری شخص کے طور پر پیش کیا گیا۔
 
طاقت میں اضافہ:
 
حزب اللہ کی طاقت میں اضافے کی وجہ سے حریف گروہوں بالخصوص لبنانی سیاست دانوں نے حزب اللہ کے خلاف کوششیں تیز کر دیں۔
 
2007 ء میں، کئی مہینوں کے سیاسی بحران کے بعد، لبنانی حکومت نے حزب اللہ کے زیر کنٹرول ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کو ختم کرنے اور ٹیلی کمیونیکیشن کو حکومت کے مکمل کنٹرول میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ حسن نصر اللہ نے نا صرف اس فیصلے کو قبول نہیں کیا بلکہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مسلح گروپ نے بیروت پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
 
حسن نصراللہ کے اس قدم پر مغربی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔ لیکن سیاسی مذاکرات کے بعد وہ لبنانی کابینہ میں اپنے گروپ کی طاقت بڑھانے اور کابینہ کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
 
2008 ءمیں، لبنانی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کی نشستوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود، نصر اللہ ویٹو پاور برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔اسی سال لبنانی کابینہ نے حزب اللہ کو اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دے دی۔
 
یہاں سے حسن نصر اللہ ایک ایسی شخصیت بن گئے کہ لبنان کی سیاسی اشرافیہ میں سے تقریباً کوئی بھی ان کی طاقت کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
 
نہ تو ان کی مخالفت کرنے والے وزرائے اعظم کے استعفے اور نہ ہی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی مداخلت انہیں پیچھے دھکیل سکتی ہے۔ اس کے برعکس ان تمام سالوں میں ایران کی حمایت سے حسن نصر اللہ شام کی خانہ جنگی اور لبنان کے معاشی بحران جیسے تاریخی بحرانوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔
 
63 سال کی عمر میں، وہ لبنان میں نا صرف ایک سیاسی اور فوجی رہنما تصور کیے جاتے ہیں بلکہ ان کی کئی دہائیوں کی جدوجہد بھی ہے جسے وہ اپنے سیاسی حریفوں کو بدنام کرنے اور پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔