
تفصیلات کے مطابق گذشتہ ہفتے ملازمتوں میں کوٹے پر تنازع کے دوران پر تشدد مظاہروں میں کم از کم 205 افراد مارے گئے تھے۔ یہ مظاہرے 1971 کی بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے رشتہ داروں کے لیے سول سروس کی ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ مختص کرنے کے خلاف ہو رہے ہیں۔
فوج کا گشت اور ملک گیر کرفیو کا نافذ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے کے بعد بھی برقرار ہے اور پولیس نے کم از کم نصف درجن طلبہ رہنماؤں سمیت ہزاروں مظاہرین کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے۔
اس امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ کے ممبران نے کہا کہ وہ اس ’ناانصافی‘ کے خلاف دوبارہ احتجاج کریں گے۔ عبدالحنان مسعود نے ایک آن لائن بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ گروپ کے سربراہ ناہید اسلام اور دیگر کو رہا اور ان کے خلاف مقدمات کو واپس لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بصورت دیگر اس امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ پیر سے دوبارہ سخت احتجاج شروع کرنے پر مجبور ہوں گے۔
طلبہ رہنما ناہید اسلام اور احتجاجی گروپ کے دو دیگر سینئر ارکان کو جمعے کو دارالحکومت ڈھاکہ کے ہسپتال سے زبردستی ڈسچارج کر دیا گیا اور سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی اہلکار انہیں اٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔
ناہید اسلام نے ہفتے کو اے ایف پی کو بتایا تھا کہ وہ ہسپتال میں زیر علاج تھیں کیونکہ پولیس نے انہیں پہلی حراست دوران تشدد کر کے زخمی کیا تھا اور یہ کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔
ادھر وزیر داخلہ اسد الزمان خان نے صحافیوں کو بتایا کہ تینوں رہنماؤں کو ان کی اپنی حفاظت کے لیے حراست میں لیا گیا تھا لیکن انہوں نے تصدیق نہیں کی کہ آیا انہیں باضابطہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے یا نہیں۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔