لاہور:(ویب ڈیسک)سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے حضرت نوحؑ کی کشتی کے مقام کے بارے میں حیران کن معلومات فراہم کی ہیں۔
حال ہی میں کی گئی تحقیق کے بعد سائنس دانوں نے اس تختی میں پوشیدہ معلومات کو سمجھنے کا دعویٰ کیا ہے جو بابل دور کے نقشے اور انجیل مقدس کے مشہور سیلاب کی کہانی سے مماثلت رکھتی ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ یہ قدیم کیونیفارم تختی مشرق وسطیٰ سے دریافت ہوئی تھی،جسے برٹش میوزیم نے 1882 ءمیں اپنی کلیکشن میں شامل کر لیا تھا۔اس تختی میں نقشہ نما نشانات کندہ ہیں جنہیں ماہرین آثار قدیمہ طویل عرصے سے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جدید ٹیکنالوجی اور تفصیلی تجزیے کے بعد سائنس دانوں نے آخرکار ان نشانات کا صحیح مطلب دریافت کر لیا ہے۔اس نقشے کے مطابق قدیم میسوپوٹیمیا،جو آج کے عراق کے علاقے پر مشتمل تھا،تلخ دریا کے نام سے جانے جانے والے ایک دریا کے دو دائروں سے گھرا ہوا تھا۔یہ دریا اس وقت کی معلوم دنیا کی سرحد کا تعین کرتا تھا اور بابل کے لوگوں کیلئے ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔
ماہرین کے مطابق اِماگو مُنڈی نقشہ چھٹی صدی قبل مسیح کے میسوپوٹیمیا(عراق) کا فضائی نظارہ پیش کرتا ہے۔اس نقشے کے سامنے اور پشت پر کندہ تحریر میں ایک خفیہ راستہ دکھایا گیا ہے،جو مسافروں کو ایک مخصوص منزل تک پہنچنے کیلئے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ تختی میں مذکورہ راستہ کسی وسیع مقام کا احوال بیان کرتا ہے،جسے پرسِکتو کشتی کے نام سے جانا جاتا ہے۔خیال رہے کہ پرسِکتو دراصل ایک بابل اصطلاح ہے جو ایک مضبوط اور بڑی کشتی کے حجم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔بابل کے قدیم صحیفوں میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ یہ کشتی ایک تباہ کن سیلاب سے بچاؤ کیلئے تیار گئی تھی۔
محققین کے مطابق یہ تفصیل حضرت نوحؑ کی کشتی کے واقعے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے،جس کا ذکر انجیل مقدس میں بھی موجود ہے۔
بابل کی روایت کے مطابق خدا نے زمین پر ایک بھیانک سیلاب بھیجا جس نے ایک خاندان کے سوا پوری انسانیت کو نیست و نابود کر دیا تھا۔یہ روایت گِلگمیش فلڈ اسٹوری،ایک مشہور بابل دور کی نظم میں بھی موجود ہے جس میں سیلاب کی کہانی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔یہ نظم مٹی کی متعدد تختیوں پر کندہ ہے جو تقریباً 3000 سال پہلے کے بابل دور کی ہے۔بابل کے اس فلڈ اسٹوری اور انجیل میں بیان حضرت نوحؑ کے سیلاب کے واقعے میں مماثلت نے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ تختی میں درج نشانات میں اُرارتو نامی ایک مقام کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ وہی جگہ ہو سکتی ہے جہاں حضرت نوحؑ کی کشتی سیلاب کے بعد لنگر انداز ہوئی تھی۔بابل کی کہانیوں میں بتایا گیا ہے کہ ایک تباہ کن سیلاب کے بعد ایک شخص اپنی بڑی کشتی کے ساتھ اس مقام پر اپنے خاندان کے ہمراہ اترا۔
بابل کے صحیفوں اور انجیل میں بیان سیلاب کے اس واقعے کی مطابقت نے تحقیقاتی ٹیم کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ حضرت نوحؑ کی کشتی کا اصل مقام شاید بابل کے قدیم نقشے کی بنیاد پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔