پنجابی زبان و ادب سے وابستہ ادیبوں، فنکاروں، شاعروں اور دانشوروں کےساتھ عوام نے اپنی ماں بولی سے محبت کے اظہار کے لئے میلے میں شرکت کی۔ میلے میں ماں بولی اور پروفیسر علی ارشد میر کی شاعری سے وابستہ کئی موضوعات کے احاطہ کے لئے سیشنز میں سیر حاصل گفتگو کی گئی۔
پہلے دن سیشنز میں پنجاب کی موجودہ سیاست کے حوالے سے الیاس گھمن نے بات کی جبکہ دوسرے سیشنز میں پنجاب کے دریاؤں کا مستقبل اور پنجاب کے دریاؤں کے پانی پر موجودہ ڈیموں کے مسئلے کو اجاگر کیا کیا۔ پاکستان بھر میں موجودہ دریائی پانیوں پر مشتمل ڈیموں کو بنیاد بنا کر کی جانے والی سیاست پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اس کے حل کی تجاویز بھی پیش کی گئیں۔
مختلف شیشز میں پنجاب کی لوک داستانوں کی ریت، پنجاب کے کسانوں کے مسائل اور علی ارشد میر کے جدید پنجابی نظم پر دانشوروں اور ادیبوں نے کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ دانشوروں میں پروفیسر غلام حسین ساجد، ڈاکٹر سعید بھٹہ، ڈاکٹر کلیان سنگھ، فاروق ندیم، راجہ صادق اللہ، عرفان کامریڈ شامل تھے۔
سیشنز میں کوارڈینٹرز کے فرائض ڈاکٹر سرمد فروغ، اختر خان، سعدیہ کامریڈ اور فاروق ندیم نے ادا کیے۔ کہانی دربار میں طاہر سندھو، پروفیسر زبیر احمد، کرامت مغل، اعجاز علی، سعید انجم کھوکھر، صابر علی صابر اور احتشام کاظم شامل ہوئے۔ میلے میں پینٹنگ اور کیلیگرافی کا مقابلہ بھی ہوا جسں میں پروفیسر علی ارشد میر کی شاعری اور پنجاب کی ثقافت کو موضوع بنایا گیا۔
میلے کے پہلے روز حسنین عباس لونے والا، احمد لونے والا اور علی عمران شوکت نے فوک گیت گا کر شائقین سے خوب داد وصول کی۔ طبلہ نواز احمد علی نے اپنے فن کا جادو دکھایا۔ صوفی رقص ندیم عباس نے پیش کیا اور میلے کے پہلے روز کے اختتام پر بلال اقبال اینڈ پارٹی نے قوالی پیش کر کے حاضرین کو خوب محظوظ کیا۔