عالمی جریدے کے مضمون میں عمران خان، اہلیہ اور پی ٹی آئی سے متعلق تنقیدی پہلو
برطانوی جریدے ’’دی اکانومسٹ ‘‘ میں شائع مضمون میں بانی پی ٹی آئی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تنقیدی پہلو سامنے آئے ہیں۔
فائل فوٹو
اسلام آباد: (ویب ڈیسک) برطانوی جریدے ’’دی اکانومسٹ ‘‘ میں شائع مضمون میں بانی پی ٹی آئی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تنقیدی پہلو سامنے آئے ہیں۔

عالمی جریدے کے مضمون میں عمران خان خان کو سیاسی کمزوری کے دور میں دکھایا گیا ہے، جہاں وہ “روحانی رہنمائی اور دنیاوی کامیابی” کے لیے بشریٰ بی بی کی طرف رجوع کرتے نظر آتے ہیں،گویا وہ اصلاحات نہیں بلکہ مذہبی تقدس میں لپٹی ہوئی سیاسی خواہش میں مبتلا تھے۔

خان کی ذاتی زندگی اور گھر کے گرد توہماتی نوعیت کے معمولات

سابق گھریلو ملازمین کے مطابق روزانہ گائے کے گوشت، سیاہ جانوروں کے سر اور کلیجی کے مطالبات ہوتے، اور گوشت کو عمران خان کے سر کے گرد گھمایا جاتا تھا تاکہ مبینہ "برے اثرات" دور کیے جائیں، جس سے قومی رہنما کے گرد توہم پرستی کا تاثر ملتا ہے۔

بشریٰ بی بی کی حکومتی معاملات میں مداخلت

ایک کابینہ رکن کے مطابق ریاستی امور میں بشریٰ بی بی کی مکمل مداخلت تھی، جس سے ادارہ جاتی اور میرٹ پر مبنی حکمرانی کے پی ٹی آئی کے دعووں کی نفی ہوتی ہے۔

بنی گالہ کے اندر خوف اور رسائی پر سخت پہرہ

بانی پی ٹی آئی کا ڈرائیور اور عملہ بتاتا ہے کہ عمران خان تک رسائی، پرواز کے اوقات اور جہاز کے اڑان بھرنے کا فیصلہ بھی بشریٰ کی منظوری پر منحصر ہوتا تھا یوں ایک قومی رہنما کا شیڈول پیرانہ نظام کے تابع دکھایا گیا۔

پی ٹی آئی کے اپنے سابق ممبران کی جانب سے کالا جادو کے الزامات

تحریک انصاف کے بڑے مالی معاون جہانگیر ترین کے متعلق بتایا گیا کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کی جانب سے کالا جادو کے خدشات کا ذکر کیا، جس کے بعد انہیں نظر انداز کر دیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نہیں بلکہ اندرونی سرگوشیاں سیاسی فیصلے کرتی تھیں۔

وفاداروں کا استعمال اور پھر بے دخلی

مضمون میں وفادار پارٹی کارکنوں اور ملازمین کو دکھایا گیا ہے کہ جیسے ہی وہ بشریٰ بی بی سے اختلاف کریں یا ان کے اثرورسوخ پر سوال اٹھائیں انہیں فوراً باہر کر دیا جاتا ہے، جو پی ٹی آئی کے “انصاف اور وفاداری” کے بیانیے کے خلاف جاتا ہے۔

فوجی سرپرستی کے ذریعے عروج، "آؤٹ سائیڈر" کے نعرے کی نفی

مضمون واضح کرتا ہے کہ عمران خان کی 2018 کی جیت کو وسیع پیمانے پر فوج اور آئی ایس آئی کی مدد کا نتیجہ سمجھا گیا، جو اس دعوے کو کمزور کرتا ہے کہ وہ صرف عوامی حمایت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف جدوجہد سے اقتدار میں آئے۔

آئی ایس آئی کا بشریٰ سے منسلک پیروں کے ذریعے خان کی رائے سازی کا دعویٰ

ایک نظریہ پیش کیا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی معلومات بشریٰ بی بی سے جڑے پیروں کو دیتی تھی، جو انہیں “رؤیا” یا روحانی اشاروں کے طور پر خان تک پہنچاتے، جس سے ان کی سیاسی بصیرت اور خودمختاری پر سوال اٹھتا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی برطرفی کو اصولی نہیں بلکہ بچاؤ کا اقدام قرار دینا

مضمون میں خان کو دکھایا گیا ہے کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کی مبینہ کرپشن کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے آئی ایس آئی چیف کو ہٹایا، جس سے ان کا “مافیاز کے خلاف” بیانیہ خودغرضانہ دکھائی دیتا ہے۔

معیشت اور فلاح پر کیے گئے وعدوں کی عدم تکمیل

مضمون عمران خان کے لاکھوں گھروں اور نوکریوں کے وعدوں کو یاد دلاتا ہے، پھر معاشی ناکامی اور خود ان کے اس اعتراف کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ایک مدت میں تبدیلی ممکن نہیں، یوں “نیا پاکستان” کا وعدہ کمزور پڑتا ہے۔

کرپشن کیسز اور “صاف دامن” امیج کا تضاد

مہنگے تحائف اور القادر ٹرسٹ جیسے معاملات کی تفصیل، اور ان کیسز میں خان اور بشریٰ بی بی کو دی گئی سزاؤں کا ذکر عمرنا خان کے اینٹی کرپشن امیج پر براہِ راست ضرب ہے۔

شخصی پرستی: اداروں پر مبنی پارٹی نہیں

مضمون میں پی ٹی آئی کو دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک “اخلاقی حاکم” اور ان کی اہلیہ کے گرد گھومتی ہے، فیصلے خوابوں اور ذاتی پسند پر ہوتے ہیں نہ کہ پارٹی کے ادارہ جاتی طریقہ کار کے مطابق۔

پرتشدد احتجاج اور عسکری تنصیبات پر حملے

مضمون بتاتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں نے فوجی تنصیبات اور تاریخی علامتوں پر حملے کیے، جس سے تحریک کو ایسے گروہ کے طور پر دکھایا گیا ہے جو سرخ لکیریں عبور کرتا ہے مگر دعویٰ اداروں کے دفاع کا کرتا ہے۔

بشریٰ بی بی کے گرد جنس پرستانہ بیانیے کے باوجود حقیقی سیاسی اثرورسوخ

اگرچہ مضمون میں ان پر misogyny کا ذکر ہے، پھر بھی انہیں ایک غیر منتخب مگر طاقتور شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو شفاف، قانون پر مبنی سیاست کے پی ٹی آئی بیانیے سے متصادم ہے۔

خان کو معصوم، کمزور فیصلہ ساز کے طور پر دکھانا

مضمون میں دوستوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ عمران خان بھولے بھالے ہیں اور بشریٰ بی بی کے ساتھ جڑے تنازعات سے بے خبر رہتے ہیں، جس سے وہ ایک ایسے رہنما دکھائی دیتے ہیں جو اپنے سخت گیر بیانیے کے باوجود روحانی اور ادارہ جاتی اثرات کا آسان شکار بنتے ہیں ۔