تفصیلات کے مطابق 27 ویں آئینی ترمیمی بل 2025 کے مسودے کے مطابق ترمیم کے ذریعے فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ سے علیحدہ نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کرنے کی شق بھی شامل کی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کا صدر مقام اسلام آباد ہو گا۔
چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی مدتِ ملازمت تین سال مقرر کی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے جج 68 برس کی عمر میں ریٹائر ہوں گے۔ آئینی عدالت کو وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات سننے کا اختیار ہوگا۔ آئینی عدالت کو آئینی تشریح اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات کا دائرہ اختیار بھی سونپا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی
مسودے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 184 کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ آرٹیکل 175 میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی ترمیم کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کو محدود کر کے نئی عدالت کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، آرٹیکل175A میں ججز تقرری کے لیے نیا طریقہ کار تجویز کیا گیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ دونوں کے چیف جسٹس شامل ہوں گے۔ وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے فیصلے ایک دوسرے پر لازم نہیں ہوں گے۔ آرٹیکل 189 میں ترامیم، آئینی عدالت کے فیصلے تمام عدالتوں پر لازم ہوگا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیلِ نو ہوگی، دونوں عدالتوں کے چیف جسٹس بطور ارکان ہوں گے۔
آرٹیکل 243 میں ترامیم کر کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا اضافی عہدہ دیا گیا۔ فیلڈ مارشل کو قومی ہیرو کا درجہ دینے اور تاحیات مراعات دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ آرٹیکل 93 میں ترمیم، وزیرِاعظم کو سات مشیروں کی تقرری کا اختیار دیا گیا۔
مسودے میں آرٹیکل 130 میں ترمیم کر کے وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کی تعداد میں اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے، آرٹیکل 206 میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ یا آئینی عدالت میں تقرری سے انکار پر جج ریٹائر تصور ہوگا۔ آرٹیکل 209 میں ترمیم کر کے سپریم جوڈیشل کونسل کے نئے قواعد 60 دن میں بنانے کی شرط رکھی گئی ہے۔
آرٹیکل 175B سے 175L تک نیا باب شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے اختیارات و طریقہ کار طے ہوگا، آرٹیکل 176 تا 183 میں ترامیم کر کے سپریم کورٹ کے حوالے سے اصطلاحات کی تبدیلی کی بات کی گئی ہے۔ آرٹیکل 186 اور 191A حذف کرنے کی تجویز بھی مسودے میں شامل ہے۔ آئینی عدالت کا ایڈوائزری دائرہ کار بھی متعین کیا جائے گا۔