
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ علی امین گنڈاپور کے مستعفی ہونے کے بعد سہیل آفریدی نئے وزیر اعلی خیبرپختونخوا منتخب ہوگئے ہیں، سہیل آفریدی نے صوبائی اسمبلی سے 90 ووٹ حاصل کئے۔
پشاور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی صوبے میں موجود نہیں ہیں، آئین کے آرٹیکل 255 کے تحت حلف کے لئے چیف جسٹس کسی کو بھی نامزد کرسکتے ہیں، چیف جسٹس کو اختیار ہے وہ کسی کو بھی نامزد کریں کہ نئے وزیراعلیٰ سے حلف لیں۔
درخواست گزاروں کی جانب سے استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی یا کسی بھی شخص کو وزیراعلیٰ کے حلف کے لیے نامزد کریں۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے درخواست پر سماعت کی جبکہ تحریک انصاف کیجانب سے بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر نے وزیراعلیٰ کا استعفیٰ منظور کیا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ وزیراعلیٰ کا استعفیٰ گورنر تک پہنچنا ضروری ہے، منظور ہونا ضروری نہیں۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آرٹیکل 255 کا حوالہ دیا ہے جس میں چیف جسٹس کے اختیار کا ذکر ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جی بالکل آرٹیکل 255 کے تحت چیف جسٹس اپنے اختیارات کا استعمال کریں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن آج ہوا ہے؟ کیا سپیکر نے گورنر کو سمری بھجوائی ہے؟ وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ جی سمری گورنر خیبرپختونخوا کو بھجوائی گئی ہے، وزیراعلیٰ نے 8 اکتوبر کو اپنا استعفیٰ گورنر کو بھجوایا تھا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آج خیبرپختونخوا اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب میں تمام پارٹیوں نے حصہ لیا، جے یو آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے بھی الیکشن لڑا، اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن نے نکتہ اٹھایا کہ گورنر نے استعفیٰ منظور نہیں کیا، وزیراعلیٰ کا استعفیٰ منظور ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 11 اکتوبر کو وزیراعلیٰ نے ہاتھ سے لکھا گیا استعفی بھی گورنر کو بھیجا، علی امین گنڈاپور نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا استعفی جمع کرایا ہے، گورنر نے دونوں استعفوں کے حصول سے متعلق ٹیوٹ کیا ہے، گورنر نے ٹویٹ کر کے مانا ہے کہ استعفیٰ انکو موصول ہوچکا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ 12 اکتوبر کو گورنر نے دونوں استعفوں سے متعلق علی امین گنڈاپور کو طلب کیا ،علی امین گنڈاپور کو کہا گیا آپ 15 اکتوبر کو گورنر ہاؤس آجائیں، اب گورنر نے کہا ہے کہ وہ شہر سے باہر ہیں اور 15 اکتوبر کو پشاور آئیں گے، جب استعفیٰ پہنچ گیا تب اس میں کوئی اور بات نہیں رہی۔
یہ بھی پڑھیں: سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ منتخب
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ علی امین گنڈاپور نے دوبارہ استعفیٰ کیوں دیا؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پہلے استعفے کی تصدیق کے لئے دوبارہ استعفیٰ لکھا گیا، گورنر ارادی طور پر استعفیٰ سے نا واقفیت ظاہر کررہے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ گورنر ہاؤس نے کوئی رسید دی تھی؟ کیا آپ اب گورنر کی غیر موجودگی میں حلف برداری کے لئے نامزدگی چاہتے ہیں ؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ اب ہم گورنر کے واپسی کا انتظار نہیں کرسکتے، کیا درخواست کی روشنی میں گورنر سے پوچھنے کی ضرورت ہے ،ڈپٹی اٹارنی جنرل یہاں موجود ہیں ان سے پوچھ سکتے ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے کوئی پٹیشن دائر نہیں کی، ان کو کیا جلدی ہے، گورنر کی واپسی کا انتظار کر لیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسپیکر نے گورنر یا اپوزیشن سے کوئی رابطہ کیا ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ گورنر خیبرپختونخوا کو پتا تھا کہ اسمبلی سیشن ہو گا، جب گورنر کو سمری بھیجی گئی تو اس پر وصولی کی گئی ۔
عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے ، کیا 255 ٹو پریکٹیکل ہے جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ گورنر شہر سے باہر ہیں اس آرٹیکل کا اطلاق نہیں ہے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گورنر کی ہدایات ضروری ہیں، اگر انکار ہوا تو پھر سپیکر کی سمری پر کارروائی ہوسکتی ہے ، حلف تو حلف ہے چاہے جس سے بھی لیں ، آج اپوزیشن جماعتوں کی ساتھ کوئی بات چیت ہوئی ہے ؟جب ماضی میں حلف کے لئے کہا گیا تو اس دوران اسمبلی اجلاس میں کوئی حلف نہیں لیا گیا تب کوئی آرڈر جاری کیا گیا؟کیا سمری کے ساتھ سپیکر نے گورنر کے ساتھ کوئی انفارمل بات کی ہے ؟
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ طے کرنا ہوگا کہ یہ صوبہ کب تک بغیر وزیر اعلیٰ کے چلے گا ، استعفے کے حوالے سے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں ، وزیر اعلیٰ کا عہدہ آئینی ہے ، پانچ گھنٹے گزر گئے نیا وزیر اعلیٰ حلف نہیں لے سکا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ بہت ضروری اور فوری ہے لہذا اس درخواست کو مزید التواء نہ کیا جائے ، سپیکر نے رولنگ پاس کی ہے ، کسی اور تصدیق کی ضرورت نہیں ہے ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 133 کے تحت گورنر وزیر اعلیٰ کو کام جاری کرنے کا کہہ سکتے ہیں ، یہ کیسے کہہ رہے کہ صوبہ بغیر وزیر اعلیٰ کے ہے ۔
بعدازاں عدالت نے وزیراعلیٰ کی حلف برداری کے لیے دائر درخواست پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔



